کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 130
’’ہمارےنیزوں نےعلانیہ ابرہہ کاشکارکیااورفضامیں کثیف غبارکاستون قائم تھا۔ عمرونےاس کی طرف لپک کرنیزے کےکاری زخم سے اس کی پسلیاں توڑدیں اورشہ سوارثابت قدم رہے۔‘‘
پھریہ کیسے ممکن ہے کہ قریش اس قدرمرعوب ہوجائیں کہ بالکل مقابلہ نہ کریں۔
مولانافراہی نے ان اشعارکی تشریح میں لکھاہے کہ”ان شعرو ں میں صاف تصریح ہے کہ ذوالرمہ کی قوم کےایک آدمی نے ابرہہ کونیزہ مارااوریہ واقعہ جس دن پیش آیا، کثیف غبارآسمان تک بلند تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نےہوابھیج کران پرسنگ ریزوں کی بارش کی۔ “[1]
اس تشریح میں مولانا سے تسامح ہوگیاہےکہ ان کے نزدیک یہ واقعہ جس دن پیش آیااسی دن اللہ تعالیٰ نےسنگ باری کےذریعے لشکرابرہہ کوہلاک کیا، حالانکہ صحیح یہ ہے کہ شاعرنے ان اشعار میں لشکرابرہہ سے، پہلے ہونےوالی جھڑپوں میں سے کسی جھڑپ کاتذکرہ کیاہے۔ ظاہرہے کہ شاعریمامہ کارہنےوالاہے۔ دوسرےیہ کہ خودان کےنزدیک یہ بات طےشدہ ہے کہ اہل مکہ نےلشکرِابرہہ سےنیزوں کےذریعے آمنےسامنےمقابلہ کرنے کے بجائے پہاڑوں پرجاکرمقابلہ کیاتھا۔ مولاناامین احسن اصلاحی نےلکھاہے:
”اس میں شبہ نہیں کہ اس موقع پرقریش پہاڑوں میں چلےگئے تھے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ مدافعت سے کلیۃً دست بردار ہوکرپہاڑوں میں جاچھپے تھے، بلکہ ابرہہ کی عظیم فوج کےمقابل میں مدافعت کی واحد ممکن شکل، جووہ اختیار کرسکتےتھے، یہی تھی۔ اس وجہ سے انہوں نےیہی اختیارکی ----ابرہہ کالشکرساٹھ ہزارتھااوراس کےساتھ ہاتھیوں کاایک دستہ تھا۔ اتنی بڑی فوج کامقابلہ میدان میں نکل کراورصف بندی کرکے تلواروں کےذریعے سے کرناقریش کےلئے ممکن نہ تھا۔ وہ اگراپنا پورا زور واثر استعمال کرتےتوبھی شاید دس بیس ہزارسے زیادہ آدمی اکٹھےنہ کرپاتے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنےلیے بہترین جنگی پالیسی یہی خیال کی کہ میدان میں نکل کرمقابلہ کرنےکےبجائے پہاڑوں میں محفوظ ہوجائیں اوروہاں سے گوریلوں کےطریقےپرجس حدتک ان کے اقدام میں مزاحمت پیداکرسکتے ہوں، کریں۔ “[2]
[1] تفسیرسورۂ فیل، ص:48۔
[2] تدبرقرآن، ج8/561-562۔