کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 129
تونےان حملہ آوروں سے اہل مکہ کی حفاظت فرمائی۔ بےشک میں صاحبِ قبیلہ ہوں اورمحبت میں غدّاری وبدعہدی کرنےوالانہیں ہوں۔ جب میں نےاس سےکہا:اےحبشیوں کے سردار!اگرخانۂ کعبہ منہدم ہوجائے توہمارےلئے اس میں خطرات ہیں۔ وہ اپنے لشکرمیں ہاتھی کےساتھ صاحبِ اقتدار تھااورمیں صبر کےساتھ مرنےکےلئے تیارہوگیا۔ میرےساتھ قریش کے ایسے نوجوان تھےجوجان کی قربانی دےکرزندہ رہنےوالوں کےلئےذلّت اورعارنہیں چھوڑتے) ان اشعار سےنہ صرف یہ ظاہرہوتاہے کہ عبدالمطلب نےابرہہ کوبازرکھنے کی کوشش کی تھی، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس کےانکارکردینےپرمقابلہ آرائی کےلئے بھی تیارہوگئے تھے۔ لیکن نتائج ان کےسامنے تھے۔ ابرہہ کےلشکرجرّارسےمقابلہ ناممکن تھا۔ راستےمیں جن قبائل نے مقابلہ کی کوشش کی تھی وہ ہزیمت کھا کرقتل اورقید کردیےگئے تھے، اس لئے اہل مکہ کوبھی اندازہ ہوگیاتھا کہ ابرہہ کے لشکرکامقابلہ کرناان کےبس میں نہیں۔ سیرت ابن ہشام میں ہے: (فھمّت قریش وکنانۃ وھذیل ومن کان بذٰلک الحرم من سائر الناس لقتالہ ثم عرفوا أنھم لاطاقۃ لھم بہ فترکوا ذٰلك)[1] ’’قریش، کنانہ، ہذیل اورجولوگ اس وقت حرم میں موجودتھےانہوں نےابرہہ سے جنگ کرنےکارادہ کیا، پھرانہیں اندازہ ہوگیاکہ ان میں اس سے لڑنےکی طاقت نہیں ہے، اس لئے جنگ کاارادہ ترک کردیا۔‘‘ اس صورت میں صرف اللہ تعالیٰ سےدعا کےعلاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کوشرف قبولیت بخش کرلشکرابرہہ کوتباہ وبرباد کردیا۔ 3۔ تیسراشبہ یہ ہے کہ”اہل سِیَرکےبیان کےمطابق ابرہہ کےحملے کےپہلے دن سےقبائلِ عرب اس کی فوج پرتاخت کرتےرہتےتھے۔ ذوالرمہ کہتاہے : وأبرھۃ اصطادت صدوررماحنا جھاراوعثنون العجاجۃ أکدر تنحی لہ عمروقشک ضلوعہ بنافذۃ عجلاء والخیل تصبر
[1] }ابن ہشام، 1/5