کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 127
”محمدبن اسحاق تابعی ہیں۔ ایک صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ کودیکھاتھا۔ علم حدیث میں کمال تھا۔ ۔ ۔ ان کےثقہ اورغیرثقہ ہونےکی نسبت محدثین میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ ان کے سخت مخالف ہیں، لیکن محدثین کاعام فیصلہ یہ ہے کہ مغازی اور سِیَرمیں ان کی روایتیں استناد کے قابل ہیں۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ان سے روایت نہیں لی، لیکن جزءالقراءۃ میں ان سے روایت لی ہے۔ تاریخ میں تواکثرواقعات ان ہی سے لیے ہیں۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے کتاب الثقات میں لکھاہے کہ محدثین کومحمدبن اسحاق کی کتاب پر اعتراض تھاتویہ تھا کہ خیبروغیرہ کے واقعات وہ ان یہودیوں سے دریافت کرکے داخلِ کتاب کرتےتھےجومسلمان ہوگئےتھے اور چوں کہ یہ واقعات انہوں نےیہودیوں سے سنےہوں گے اس لئےان پرپورااعتماد نہیں ہوسکتا۔ ‘‘[1] یہ کہنابھی صحیح نہیں کہ یہ روایت صرف محمد بن اسحاق کے واسطے سےمروی ہے، اس لئےکہ روایت کے بعض اجزاء دوسرےراویوں جیسےقتادہ، عبیدہ بن عمر، ابن عباس، سعیدبن جبیروغیرہ سے بھی مروی ہیں اور ان میں چڑیوں کے بہ صراحت سنگ باری کرنے کابھی تذکرہ ہے۔ پھریہ کہ اگرہم یوں ہی ایک دواقوال کی روشنی میں راویوں کو مطعون اورناقابل ِاعتبارقراردیناشروع کریں توامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ جیسےبزرگ فقہاء بھی اس زد میں آنےسے نہ بچ سکیں گے، اس لئےکہ متعددلوگوں نےان پربھی نقدوطعن کیاہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف مولانافراہی روایت کومحض ابن اسحاق کی وجہ سے ناقابل اعتبارقرار دیتے ہیں، دوسری طرف خود اسی روایت میں موجوداشعارپراپنےاستدلال کی بنیادرکھتےہیں، جب کہ ابن اسحاق کے بارےمیں یہ بھی کہاگیاہےکہ انہیں اشعارگھڑکرپیش کیےجاتےتھے۔ (ب) مولانافراہی نےواقعۂ فیل کےسلسلےمیں مشہورعام روایت پرمختلف عقلی شبہات عائدکرکےاسے بےبنیاد، لغوااورغلط قراردیاہے۔ ذیل میں ان شبہات کاجائزہ لیاجائےگا: 1۔ پہلاشبہ یہ ہےکہ”روایت میں ہے کہ قریش کےسردارعبدالمطلب خداکےگھرکی حفاظت کےلئے مقابلہ آرائی کےبجائے پہاڑوں میں جاچھپے۔ ‘‘
[1] مولاناشبلی نعمانی، سیرت النبی، دارالمصنفین اعظم گڑھ، 1983ء، 1/23-24۔