کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 126
ہوچکے تھےاورجنہیں خیبر، قریظہ اورنضیرکی جنگوں کےحالات اوراپنے آباء واجداد کےمتعلق اس طرح کےعجیب وغریب واقعات یادتھے۔ ابن اسحاق یہ روایات معلوم کرنے کےلئےان کاتتبع کرتے تھےاوراس بات کاالتزام نہ کرتےتھےکہ وہ قابل اعتماد بھی ہیں۔ [1] ان پرایک اعتراض تدلیس کابھی ہے، لیکن اس سے کسی کامدلّس ہونااس کی تضعیف کےلیے کافی نہیں ہے۔ زہری بھی تدلیس کرتےتھےاوران سے پہلے عروہ بھی تدلیس کرتےتھے، لیکن کسی نے ان کو مطعون نہیں کیا، بلکہ خودامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نےتدلیس کےباوجود عروہ کی روایات قبول کی ہیں۔ ڈاکٹرحمیداللہ فرماتےہیں: ”یہ اسلوب اس فرق سے متعلق ہے جوحدیث اورتاریخ کےدرمیان موجودہے۔ حدیث میں مربوط قصہ مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ بیان کردہ واقعات کی معرفت کےبارےمیں ہرگواہ کی گواہی مطلوب ہوتی ہے۔ جہاں تک تاریخ کاتعلق ہے اس کاانحصارتوحدیث پرہے، لیکن اس کی غرض یہ ہے کہ تاریخی حکایت کے متعلق ایک مکمل اورمربوط قصہ کےطورپرخبربہم پہنچائی جائے، بغیراس کےکہ کلام کواسانید اوربیانات کےتکرارسے بوجھل کیاجائے۔ ‘‘ [2] ابن اسحاق کومطعون کرنےوالوں سے کہیں زیادہ تعدادان لوگوں کی ہے جنہوں نے ان کی توثیق کی ہے۔ شعبہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، حمادبن زید، حامدبن سلمہ جیسے عظیم محدثین نے ان سے روایت کی ہے۔ [3]سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں بھی ان کی روایات موجود ہیں۔ [4] جس شخص کو متعددائمہ حدیث نے ثقہ قرادیااور جس کی روایات(صحیح بخاری کے علاوہ)صحاح تک میں موجود ہوں، اس کی روایت کو محض چندلوگوں کی تضعیف کی وجہ سے(وہ بھی ایک مخصوص پس منظر میں) ناقابلِ اعتبار قراردیناصحیح نہیں اس سلسلہ میں عصرحاضرکےمشہورمحقق علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی رائے ملاحظہ ہو:
[1] نقوش، لاہور، رسول نمبر، 11/380، مقدمہ برسیرت ابن اسحاق، از ڈاکٹر محمدحمیداللہ۔ [2] ایضاً، ص:385۔ [3] یضاً، ص:386، بحوالہ جماعیلی، الکمال في معرفۃالرجال، مخطوطہ برلین۔ [4] مقدمہ برسیرت ابن ہشام از محققین داراحیاءالتراث العربی لبنان، ص:4۔