کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 125
مشہورعام روایت پرشبہ (الف)روایت کی سندکےبارےمولانافراہی نےلکھاہے: ”جوحالات وواقعات بیان کیےگئےہیں سب یک قلم بےبنیاد ہیں۔ ازروئے سندا ن میں سے ایک روایت بھی قابل اعتمادنہیں۔ یہ تمام روایات ابن اسحاق پرختم ہوتی ہیں اوراہل فن کے نزدیک یہ امرطے شدہ ہے کہ وہ یہوداورغیرثقہ راویوں سے روایت کرتےہیں۔‘‘[1] مولانانسیم اصلاحی نے بھی ابن حجر رحمہ اللہ کی تہذیب التہذیب سے بہت سےاقوال نقل کیے ہیں، جیسےامام مالک رحمہ اللہ کاقول ”محمدبن اسحاق دجال ہے“۔ امام بخاری رحمہ اللہ کاقول”محمدبن اسحاق ایک ہزارحدیثوں میں منفردہے“۔ ابن نمیر رحمہ اللہ کاقول ”مجہول لوگوں سےبےبنیادروایات نقل کرتےہیں“۔ احمدبن حنبل رحمہ اللہ کاقول ”محمدبن اسحاق تدلیس کرتے ہیں“وغیرہ۔ پھرحاشیہ میں لکھاہے کہ ”امام بخاری اوردوسرے ائمہ حدیث انہیں بالکل ناقابل ِاعتماد سمجھتےہیں۔ ‘‘[2] لیکن ان تمام اقوال کاجائزہ لینےکی ضرورت ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کےقول کاایک خاص پس منظرہے۔ مدینہ میں ابن اسحاق سے بڑھ کرعلم الانساب جاننےوالا کوئی نہ تھا۔ ابن اسحاق کاخیال تھاکہ امام مالک رحمہ اللہ ذی اصبح کے آزاد کردہ غلاموں میں سےہیں، جب کہ امام مالک رحمہ اللہ اپنےآپ کوحمیرکی شاخ اصبح میں سے سمجھتےتھے۔ اسی وجہ سے دونوں میں منافرت تھی۔ جب امام مالک رحمہ اللہ نےمؤطاتصنیف کی توابن اسحاق نےکہا (ائتونی بہ فأنابیطاره) (اسے میرے پاس لاؤ، اس کاناقدتومیں ہوں) یہ بات امام مالک رحمہ اللہ کومعلوم ہوئی توانہوں نےفرمایا”ھذادجّال من الدجاجلۃ، یروی عن الیھود“ (یہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔ یہود سے روایت نقل کرتاہے۔ )ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نےلکھاہے: ”امام مالک رحمہ اللہ حدیث کی وجہ سےابن اسحاق پرعیب نہیں لگاتےتھے، بلکہ وہ اس لیے ان کاانکار کرتے تھے۔ کہ وہ غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےمتعلق یہودیوں کی ان اولادوں کی روایات نقل کرتےتھے جومسلمان
[1] ایضاً، ص:45۔ [2] سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی، ص:62-63ج:6، ش:2، اپریل تاجون1987ء۔