کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 124
مولانا فراہی کاطریقۂ تفسیر مولانا فراہی کےنزدیک بنیادی ماخذ صرف قرآن ہے، حدیث کوفرع کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے ان کے نزدیک تفسیرکاطریقہ یہ ہے کہ پہلے قرآن میں تدبرکیاجائےاورقرآن کےالفاظ، سیاق وسباق اور نظم سے اس کامفہوم سمجھاجائے، پھرجومفہوم سمجھ میں آیاہواس پرحدیث کوپرکھاجائے۔ اگرحدیث سےبھی وہ مفہوم معلوم ہوتا ہوتوحدیث کوقبول کرلیاجائے: ”شان نزول خودقرآن کے اندرسےاخذکرنی چاہئے اوراحادیث وروایات کےذخیرہ میں سے صرف وہ چیزیں لینی چاہئیں جونظمِ قرآن کی تائیدکریں، نہ کہ اس کے تمام نظام کودرہم برہم کریں۔ پھرسب سےزیادہ لائقِ اہتمام وہ شانِ نزول ہےجوخود قرآن سے مترشح ہورہی ہو۔‘‘ [1] یہی طریقہ کار انہوں نے تفسیرسورۂ فیل میں بھی اپنایاہے۔ چنانچہ فرماتےہیں: ”مفسرین عموماً اس قصہ کی تما م تفصیلات روایات سے اخذ کرتےہیں اور ضعیف وقوی روایات میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یہ شکل مضر اورعموماً صحیح تاویل تک پہنچنے سےمانع ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ واقعہ کی اصلی شکل روایات سےبالکل الگ کرکےدیکھی جائے، اس کےبعد روایات پربھی نظرڈالی جائے اورکمزور وایات کوصحیح روایات سے چھانٹ کرالگ کیاجائے۔ ‘‘[2] قرآن میں تدبرضروری ہے، لیکن روایات کوپس پشت ڈال کرصرف عقل کاسہارا لینااورروایات کوعقلی طور پرسمجھ میں آنے والے مفہوم پرپرکھناحداعتدال سے تجاوز ہے۔ ایک تاریخی واقعہ کے سلسلہ میں صحیح روایات کےساتھ ضعیف اورمبالغہ آمیزروایات ہونے کاامکان ہے لیکن اس کی وجہ سے تمام روایتوں کوبےبنیاد اورخودساختہ قراردیناصحیح نہیں۔
[1] مولاناحمیدالدین فراہی، مقدمہ نظام القرآن، ترجمہ مولاناامین احسن اصلاحی، ص:26-27، طبع اول، دائرہ حمدیہ سرائےمیر، اعظم گڑھ۔ [2] ایضاً، تفسیر سورہ فیل، ص:42۔