کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 122
حدیث دیگراں دیگر اہل علم کی تحریریں مولانا فراہی کی بابت ہم نے جوگفتگو کی ہے، وہ تمام تران کے بیان کردہ ان اصولوں پرمبنی ہے جوانہوں نے قرآن کریم کی تفسیروتوضیح کے لیے بہ زعم خویش ضروری سمجھے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں مرحوم نے جوچندسورتوں کی تفسیر کی ہے اوروہ ”مجموعۂ تفاسیر فراہی“کی صورت میں مطبوع ہے۔ ان پرہم نے تبصرہ کرنےکی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ہی فراہی اصولوں پرتفسیر”تدبرقرآن“ مکمل شکل میں ہمارے سامنےہے، اس کاجائزہ لے کرہم واضح کرچکے ہیں کہ یہ تمام اصول دراصل انکارحدیث کااورمسلّمات ِ اسلامیہ کے انکارکاشاخسانہ ہیں، ہماری اس تنقید سے پہلے ممکن ہےبہت سےلوگوں کواس حقیقت کےماننے میں تأمل یاانکارہو۔ لیکن ہماری مفصل تنقید کے بعداس کاانکارسوائے مکابرہ کے کچھ نہیں ہوگا۔ تاہم﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾ (الروم:32) کے تحت فراہی گروہ کے لیے اس کڑوی گولی کانگلناناممکن ہوگا۔ بہرحال ”تدبرقرآن “ فراہی اصولوں ہی کاپرتواورعکس ہے، اس لیے ہم نے فراہی صاحب کے تفسیری اجزاء پربحث غیرضروری سمجھی ہے، علاوہ ازیں ہماری اس تنقید میں مولانا فراہی کی بیشترتفسیری گفتگو پربھی تنقید آگئی ہے کیونکہ ان دونوں تفسیرکی بنیاداحادیث صحیحہ کےانکاپرہے اس لیے دونوں کی گمراہیاں بھی یکساں اورمشترک ہیں۔ اس کےباوجود ہم مولانا ظفرالاسلام ندوی حفظہ اللہ کےدومضمون اس نقطۂ نظرکےتحت شائع کررہےہیں کہ ایک تویہ واضح ہوجائے کہ ہم اپنے بیان کردہ موقف میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ پاک وہندکےوہ دیگراہل علم بھی ہمارے ساتھ ہیں جنہوں نےغیرجانبداری سےاصلاحی وفراہی تحریروں کوپڑھاہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ تحریریں بھارت میں چھپی ہیں، پاکستان کے اہل علم کے علم میں شاید نہ ہوں، ہماری کتاب میں شامل ہونے کی وجہ سے اہل پاکستان کے لیے بھی ان سے استفادہ ممکن ہوجائے گا۔ لیجیےآئندہ صفحات میں یہ دونوں فاضلانہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں(ص، ی)۔