کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 120
انداز کے کچھ اور حیلے، جسےانہوں نے”اصول“قررادیےہیں، اختیار کیےہیں تاہم ان سب کامآل انکارحدیث ہی ہے، جیسا کہ ہم نے ان سب کا تجزیہ کرکے اس حقیقت کوبالکل واضح کردیاہے۔ البتہ لوگوں کو ان کے اس رویّےاور خوش نماعنوانات سے فراہی گروہ کو ان کےامام سمیت سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہے یا ان کے بارےمیں خوش فہمی کاشکاررہےہیں اوربہت سےلوگ تواب تک بھی ہیں۔ لیکن جن لوگوں نےدقّتِ نظرسےکام لیااورعنوانات کی خوش نمائی سےمغالطے کاشکارنہیں ہوئے، انہوں نےفراہی صاحب کی زندگی ہی میں ان کوانکارحدیث کامرتکب قراردیاجس کی صفائی کےلیےمولانا اصلاحی کوان کی طرف سے وکالت صفائی کا فریضہ انجام دیناپڑا۔ لیکن کسی واضح اوربڑے جرم پر کسی کی وکالت صفائی پر دہ نہیں ڈال سکتی۔ اور اب تواس کے اتنےواضح شواہد اور دلائل سامنے آگئے ہیں کہ اس کاانکارکسی کے لیے ممکن ہی نہیں رہاہے۔ کیونکہ استاذ گرامی کے بعد ہونہار ترین شاگرد کے افکاروخیالات بھی عملی صورت میں سامنے آگئےہیں جن کوپوری تفصیل کے ساتھ ہم نے دنیائے علم وتحقیق کے سامنے پیش کردیاہے۔ علاوہ ازیں اپنے اس موقف میں - استاذ اور شاگرددونوں کے بارے میں -ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ جنہوں نےبھی امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے مقابلے میں فراہی موقف کاجائزہ لیا ہے، وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں جونتیجہ ٔ تحقیق بالدلائل ہم نے پیش کیاہے۔ اسی لیے ہم نےان کے نتائج تحقیق بھی باحوالہ نقل کردیےہیں۔ مدرسۃ الاصلاح کی”صراطِ مستقیم“اوراس کا”مقصداساسی“سنت کاانکار آخرمیں ہم صرف ایک اقتباس پیش کرکےاپنےمضمون کوختم کرتےہیں۔ یہ ایک اقتباس ہی ا س گروہ کےموقف اوراس کی تمام ترسعی وکاوش کوآشکارا کرنےکےلیےکافی ہے، بشرطیکہ چشم بصیرت واہواوردل ِبینا سے انسان بہرورہو۔ یہ اقتباس اس مدرسۃ الاصلاح کی بابت ہے جس کوفراہی صاحب نےعروج و ترقی سےہم کنار فرمایاتھا، اس تحریر کی بابت مولاناسیدسلیمان ندوی صاحب کی وضاحت ہے کہ”یہ تحریرخود مولانا( فراہی) نے لکھی تھی یاان کی فرمائش سےلکھی گئی اوران کی نظرسےگزرکراصلاح پاچکی تھی۔ ‘‘