کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 119
فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ﴾(الشعراء:52، 66) لہٰذایہ خیال کہ رات بھرآندھی چلتی رہی اورہواکے زورسے سمندرکاپانی نہرسویز میں چلاگیاکسی بھی طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن صرحتاً کہتاہے کہ پانی پہاڑکی طرح دونوں جانب نگاہوں کے سامنے موجودتھا۔ اگریہ کہا جائے کہ ہواتو پہلے سے چل رہی تھی لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس لاٹھی ماری توہوامیں تیزی اور شدت آگئی جس کی وجہ سے سمندردو لخت ہوگیا، اس کاتقاضا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عبور دریاکے وقت ہواشدت سےچل رہی ہوتاکہ سمندرکاپانی اپنی جگہ پرنہ آجائے، لیکن یہ بھی قرآن کےبیان کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کی وضاحت کے مطابق سمنداس وقت پرسکون تھا ﴿وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾اور مولانافراہی کے الفاظ میں دریا کاسکون ظاہر ہے کہ ہوا کے سکون سے ہوتاہے۔ دوسرےیہ کہ دریاکے دولخت ہوجانےمیں ” ہوا“کاکوئی دخل تھاتوقرآن میں اس کاکوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے حالانکہ قوم عاد کی تباہی کے سلسلہ میں ہواکااثرتھاتوقرآن نے صراحتاً اس کا ذکرکیاہے، لہٰذاکیاضرورت ہے کہ قرآن کی صراحت سے چشم پوشی کرکے مشکوک اسرائیلی روایت کے ذریعہ اس کے بیان پر اضافہ کیاجائے۔ [1]، [2] خلاصہ ٔ مباحث از مؤلف، حافظ صلاح الدین یوسف مولانا فراہی صاحب کی تحریرات، ان کے بیان کردہ اصولوں اور ان کے طرز تفسیر، ان سب سے حدیث کے بارے میں ان کا جو موقف سامنے آتاہے، وہ امت مسلمہ کے اس متفقہ موقف سے یکسر مختلف ہے جو آج تک علمائے اسلام کاچلاآرہاہے بلکہ وہ ان لوگوں کے قریب یا بالکل ان جیسا ہی ہے جو حدیث کی حجیت واہمیت کے منکرہیں۔ ان کے اور دیگر منکرین حدیث کے درمیان صرف ایک فرق ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنےموقف کا اثبات واظہار کرتےہیں اور فراہی صاحب اور ان کے پیروکاروں نے اس کے لیے”نظم قرآن“کا خوش نما عنوان اور اسی
[1] یہ اضافہ نہیں ہے بلکہ قرآن کی صراحت کے مقابلے میں تحریف شدہ تورات کے بیان کو زیادہ صحیح قرار دینایااس کی تغلیط ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک(ص-ی) [2] مجلہ”ترجمان الاسلام، بنارس، بھارت شمارہ :5بابت، اپریل، مئی، جون، 2002ء۔