کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 118
تصدیق ہی کے طورپر پیش کیاہے، اور رطب ویابس روایات کو نقل کرنے سے گریز کیاہے، لیکن بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے قرآنی مقصداورمفہوم کواسرائیلی روایت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور واضح مفہوم کونظرانداز کردیاہے، مثلاحضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کےبخیروعافیت دریاسے نکل جانے کےسلسلہ میں تورات کابیان ہےکہ پھرموسیٰ نےاپناہاتھ سمندرکے اوپربڑھایااورخداوندنےرات بھرتندپوربی آندھی چلاکراورسمندکوپیچھےہٹاکراسےخشک زمین بنادیااورپانی دو حصےہوگیا۔
علامہ فراہی تورات کے اس بیان کونقل کرنے کے بعدلکھتےہیں:
یہ پوربی آندھی رات بھرچلتی رہی اورصبح کوتھم گئی، ہواکے زورنے سمندرکاپانی مغرب کی طرف خلیج سویز میں ڈال دیا اور مشرقی خلیج، خلیج عقبہ کو بالکل خشک چھوڑ دیا اور پھرجب آندھی تھم گئی تو پانی اپنی جگہ پر پھیل گیا اور موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے والی جماعت غرق ہوگئی، اس کی تصدیق قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔ سورہ دخان میں ہے﴿فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ﴾(الدخان:23)
”پس میرےبندوں کورات کےوقت نکال لےجاؤ، تمہاراتعاقب کیاجائےگااورسمندرکو ساکن چھوڑدو بے شک وہ غرق ہونےوالی ہے، ﴿وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾میں’ ’ رھوا ‘‘کےمعنی سکون کے ہیں اوردریاکاسکون ظاہرہے کہ ہواکے سکون سے ہوتاہے۔ [1]
علامہ فراہی کی یہ توجیہ صراحتاً قرآن سے متصادم ہے، کیونکہ قرآن یہ کہتاہے کہ بنی اسرائیل جب دریاکے پاس پہنچے تودریااپنی پوری روانی سے بہہ رہاتھا اور فرعون کا لشکران کے بالکل قریب آچکاتھا، سامنے ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندراورپیچھےبالکل قریب فرعون کالشکرجرار، یہ صورت حال دیکھ کربنی اسرائیل چیخ اٹھے﴿إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ ہم توپکڑلئےگئے“۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا﴿ كَلَّا إنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ یہ جو اب بتلارہاہے کہ بنی اسرائیل کے سمندرتک پہنچنےسےپہلے کوئی رستہ نہیں بناتھا، اس کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ ﴿فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ﴾(ہم نےموسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اپناعصاسمندرپرمارو، چنانچہ سمندردونیم ہوکرپہاڑ کی طرح دونوں جانب کھڑاہوگیا)﴿فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ
[1] تفسیرنظام القرآن، ص:131-132۔