کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 117
صحیح بخاری ومسلم کی احادیث کوعلماء محققین کی ایک جماعت نےمختلف قرائن اورشواہد کی روشنی میں قطعی اوریقینی قراردیاہےاگرچہ وہ خبرواحد ہی کیوں نہ ہو۔ [1]
لیکن علامہ فراہی کواس سےاتفاق نہیں ہے ان کےخیال کےمطابق یہ طرز عمل، علماء کوخدائی مقام دینے کے مترادف ہے۔ [2]
حاصل یہ ہے کہ حدیث کےتعلق سے ان کے یہاں منفی طرز عمل اورشدت پائی جاتی ہے اوران کی تحریروں سے انکارسنت کی فکرکوغذاملتی ہے ان سے متاثرشخص احادیث کے سلسلہ میں بڑاجری ہوجاتاہےاورمعمولی وہم کی بنیاپر حدیث کورد کردیتاہے۔
4۔ اسرائیلی روایات:
تفسیر کے خبری ماخذمیں سے ایک ماخذ اسرائیلی روایات بھی ہے، علامہ فراہی نے بھی اپنی تفسیر میں اس سے مددلی ہے بلکہ وہ احادیث کے بہ نسبت اسرائیلی روایات سے کچھ زیادہ ہی اعتنابرتتے ہیں، اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتےہوئےلکھتےہیں:
”اگرتم کوشبہ ہو کہ یہ کتب مقدسہ غیر محفوظ ہیں اس وجہ سے قرآن کی تاویل میں ان سے رجوع کریں گےتوغلطی میں پڑنے کا امکان ہے تویہ شبہ بالکل بجا ہے لیکن ہم یہ بات نہیں کہتے، ہماراکہنا یہ ہے کہ پہلے قرآن کو خودقرآن اورعربی زبان کی مددسے سمجھنا چاہیے، پھراگرکتب مقدسہ میں ایسی بات ملے جومعنی اور اسلوب کے اعتبارسے قرآن سے ملتی جلتی ہویااس سے واضح تعلق رکھتی نظرآئے تودونوں باتوں پرتدبراوردونوں کےاسلوبوں کےتقابل سےقرآن کی بلاغت واضح ہوگی، نیز مختلف معانی میں سے ہم جس مفہوم کوترجیح دیں گے اس تائید سے مزید اس پرہمارا اعتمادمضبوط ہوگا۔ ‘‘[3]
اپنے اس اصول کی پاسداری کرتےہوئے انہوں نےعام طورپراسرائیلی روایات کوچھان پھٹک کرتائید اور
[1] دیکھیے شرح نخبہ، ص:7، مختصرعلوم الحدیث، ص:35۔
[2] فاتحہ نظام القرآن، ص:32-33۔
[3] مقدمہ نظام القرآن، ص:46