کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 114
یہ صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے جسے تاویل کرکے قرآن کے موافق بنایاجاسکتاہے جیساکہ محدثین نے کیابھی ہے اورخودان کےشاگردرشید مولاناامین احسن اصلاحی لکھتےہیں: ’’ اگرکذب کےمعنی توریہ کےلیے جائیں تواس روایت کاصحیح محل متعین ہوجاتاہے اورعربی زبان کی روسے یہ معنی صحیح ہیں۔ ‘‘[1] حدیثیں قرآن سےماخوذاورمستنبط ہیں، حدیث وقرآن میں شرح ومتن کارشتہ ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد موقعوں پرحدیث بیان کرنے کے بعداس کےقرآنی ماخذ کی نشاندہی کی ہے، علامہ فراہی نےعملی طورپراپنی تفسیرمیں اس اصول کوبرتنےکی کوشش کی ہے، اورمتعددحدیثوں کےقرآنی ماخذکی طرف رہنمائی کی ہے، اس موضوع پر”احکام الاصول“کےنام سےان کی ایک مستقل تصنیف ہے جس میں انہوں نے دکھایاہے کہ رؤیت باری، وارث کےلیے وصیت کاحکم، وصیت کاایک تہائی تک محدود ہونا، خالہ اورپھوپھی کامحرمات میں سےہونا آیت قرآن سے ثابت ہے، لیکن یہ بھی ایک انسانی کوشش ہے جس کاصحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی بنیاد پرکسی صحیح حدیث کی ناقابل قبول تاویل یاانکارغلط اورنارواہے۔ واضح رہے کہ علامہ فراہی نظم قرآن سے عدم مطابقت کی وجہ سے صحیح حدیثوں کوردکردیتےہیں، وہیں بکثرت ضعیف حدیث سےاستدلال بھی کرتےہیں جوان کے خیال کے مطابق نظم قرآن کےموافق ہوتی ہے۔ قبول حدیث کےسلسلہ میں ان کااصول یہ ہے کہ: جس حدیث کاماخذقرآن میں متعین نہ کیاجاسکےاورحدیث کاحکم قرآن کے خلاف نہ ہوبلکہ اس پراضافہ ہوتو یہ اضافہ اس بناپرقبول کرلیاجائےگا کہ وہ اس نوربصیرت کانتیجہ ہے جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوبطورخاص عطاءہوئی تھی، ایسے احکام کوسنت میں مستقل اصل قراردیاجائےگا۔ ۔ ۔ احکام کی ایسی روایات جن کی بنیادقرآن میں نہ ملتی ہواورنہ اس اضافہ کا قرآن متحمل ہو سکتاہواوروہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہویاان کےماننے سے قرآن کاجلی یاخفی نسخ لازم آتاہوان کاترک کرناضروری ہے کیونکہ ان کی نسبت آنحضور کی طرف درست نہیں ہے۔ متواترحدیث کے ذریعہ”کتاب اللہ“ کی کسی آیت کومنسوخ کرناممکن ہے یانہیں یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔
[1] حاشیہ نظام القرآن، ص:39۔