کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 113
3۔ حدیث جیساکہ مذکورہواہے کہ علامہ فراہی کے نزدیک قرآن حکیم کی تفسیرمیں اصل حیثیت خود قرآن کوحاصل ہے، احادیث وغیرہ کومحض تائید اورتصدیق کےلیےتابع کی حیثیت سے نقل کرتےہیں چنانچہ وہ کہتےہیں کہ: ’’ میں یہ یقین رکھنےکے باوجود کہ صحیح حدیثیں کبھی قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہیں پہلے آیات کی تفسیرآیات کی روشنی میں کرتاہوں اوراحادیث کاتذکرہ تابع کی حیثیت سے کرتاہوں۔ ‘‘[1] وہ یہ بھی کہتےہیں کہ : ’’بہت سی روایتیں بظاہرقرآن کے خلاف ہوتی ہیں مگرقرآن کی روشنی میں اس کی تاویل کی جائے تووہ بالکل قرآن کے مطابق ہوجاتی ہیں کیونکہ قرآن کی حیثیت ایک مرکز کی ہے اورتمام حدیثیں مختلف جہتوں سےاس کی طرف لوٹتی ہیں۔ ‘‘ علامہ فراہی کےاس خیال سے کون انکارکرسکتاہے کہ صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہے اورجوحدیث بظاہرقرآن کےخلاف معلوم ہو اس کی تاویل اورتوجیہ کرکے قرآن کے موافق کرناچاہیے، البتہ یہ ہوسکتاہے کہ کسی آیت سےاخذکیاہوامفہوم کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو، ایسی صورت میں حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ذہنی اپج کےمخالف ہوتی ہے، اس حالت میں طریق واضح یہ ہے کہ حدیث کواختیار کیاجائے، اورعقلی مفہوم سے گریز، یہ بڑی جرأت کی بات ہوگی اپنے پندارعلم کے سامنےکسی صحیح حدیث کورد کردیاجائے جسے جمہورامت نےاخذ وقبول کی سند عطاکی ہو، اوراسے معتبراور مستند قرار دیاہو۔ افسوس کہ علامہ فراہی کےیہاں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن میں انہوں نےخود اخذکردہ مفہوم کے بالمقابل صحیح احادیث کوردکردیاہے اوربعض ایسی حدیثوں سے انکارکیاہے جس کی تاویل ہوسکتی ہے، چنانچہ لکھتےہیں: ’’.....اورسب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پرہے جوایسی روایتوں کوقبول کرلیتےہیں جونصوص قرآن کی تکذیب کرتی ہیں مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کےجھوٹ بولنے کی روایت۔ ‘‘ [2]
[1] نظام القرآن:9 [2] نظام القرآن، ص: 39۔