کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 112
آیتیں سیکھتےاوراس کےبعدجب تک کہ ان آیتوں کی علمی اورعملی کیفیات کونہ معلوم کرلیتےآگے نہیں بڑھتےتھے۔ [1]
اگرقرآن کے معانی ومفہوم کوجاننے کے لیےزبان دانی کافی ہوتی اوراحادیث کی ضرورت نہ ہوتی تو صحابہ کرام کوآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنےاورسکھانے کی حاجت نہ ہوتی۔
علاوہ ازیں اگرمکمل قرآن قطعی الدلالت ہے توصحابہ کرام کے درمیان قرآن فہمی کے سلسلہ میں اختلاف نہیں ہوناچاہیےکہ وہ اہل زبان تھے، اس کےعلاوہ نزول قرآن کے پورے ماحول سے باخبراورسیاق وسباق سے پورے آگاہ، حالانکہ ان کے درمیان متعددموقعوں پراختلاف ہواہے جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ پوراقرآن قطعی الدالالت نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن میں متعدد معانی کااحتمال ہے اورجس کے تعین کےلیےحدیث وغیرہ سے مراجعت ضروری ہے جیساکہ جمہورامت کایہی مسلک ہے۔ [2]
چنانچہ علامہ شاطبی لکھتےہیں: (لأن الکتاب یکون محتملالأمرین فأکثرفتأتي السنۃ یتعین أحدھمافیرجع إلی السنۃ ویترک مقتضی الکتاب)[3]
’’ قرآ ن میں کبھی دویااس سے زیادہ معانی کااحتمال ہوتاہے، حدیث ان میں سےایک کومتعین کردیتی ہے لہٰذاسنت کی طرف رجوع کیاجائے گااورقرآن کے دیگراحتمالات کوترک کردیاجائےگا۔ ‘‘
یہ تو بات دواوردوچار کی طرح واضح ہے کہ بہت سے الفاظ متعددمعانی کااحتمال رکھتےہیں اوراہل لغت نے اس کےمتعدد معانی بیان کیے ہیں، قرآن میں بھی بہت سی جگہوں پرایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایسی حالت میں کسی ایک مفہوم کی ترجیح کےلیے دوہی راستے ہوسکتے ہیں۔ عقل انسانی یاجس پرقرآن نازل ہواہے اس کےارشادات واقوال، پہلی صورت پُرخطرہے اورانسانی کاوش اورذہنی پیداوارکونادانستہ قرآن بنانے کی کوشش، اورعقل کومعصوم سمجھنے کی غلطی، اورحدیث سے بے نیازی برتنے والے اسی غلطی میں مبتلاہوتےہیں، اللہ اس سے حفاظت فرمائے۔
[1] الاتقان2/176۔
[2] دیکھیے اصول الفقہ للخلاف/35۔
[3] الموافقات 4/8,10، بحوالہ ترجمان السنۃ1/123۔