کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 111
هو أعلم بالقرآن) ”خداکی قسم قرآ ن کےبجائے ہم بھی کوئی اورکتاب نہیں چاہتےلیکن ہم اس سے کیسے قطع نظرکرسکتےہیں جوقرآن کاسب سےزیادہ جاننے والا ہے۔ “[1] دوسرے یہ کہ صحابہ کرام سے بڑھ کرزبان دانی کادعوی کون کرسکتاہے، جوایک ایک لفظ کے لغوی اورمحاورتی مفہوم سے واقف تھے۔ قرآن ان کےسامنے نازل ہورہاتھا، آیت کےپس منظر اورسیاق وسباق سے بخوبی آگاہ تھے، انہیں توپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سےرجوع کئے بغیرقرآن سمجھ میں نہیں آیا، توبعد کے لوگوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کے بغیرقرآ ن کیسے سمجھ میں آسکتاہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ﴾(الا ٔنعام:82) ”وہ لوگ جوایمان لائے اوراپنےایمان میں کسی ظلم کی امیزش نہیں کی یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اوریہی لوگ راہ یاب ہیں۔ ‘‘ توصحابہ کرام پریشان ہوگئے اوردربارنبوت میں آکرعرض کیاکہ (أیّنالم یظلم) ہم میں کون ایساہے جس نے ایمان کے بعدظلم نہ کیاہو، کہ ہرطرح کی معصیت اورگناہ ظلم کے دائرےمیں آتاہے اورشاید ہی کوئی اس سے محفوظ ہو، لہٰذا اس آیت کے مطابق تو کوئی بھی فوزفلاح کامستحق نہ ہوگا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ یہاں ظلم کاعمومی مفہوم مراد نہیں ہےبلکہ ظلم کی ایک خاص اورانتہائی شکل شرک مرادہے، چنانچہ قرآن ہی کی دوسری آیت میں شرک کوظلم سے تعبیرکیاگیاہے۔ [2] کیاکوئی محض لغت کی مدد سے یہ متعین کرسکتاہے کہ یہاں ظلم سے مراد عموی ظلم نہیں بلکہ شرک ہے۔ اس کے علاوہ متعدد مثالیں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کوقرآن سمجھنےکےلیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سےمراجعت کی ضرورت پڑی، بلکہ وہ بڑے اہتمام سے معانی قرآن کوسیکھتے اورسکھاتےتھے، چنانچہ علامہ سیوطی نے لکھاہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اورحضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابۂ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دس
[1] الموافقات4/24، بحوالہ ترجمان السنۃ:1/117۔ [2] صحیح بخاری، باب ظلم دون ظلم، کتاب الایمان، حدیث نمبر:۔