کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 110
اوراس کانظم وسیاق جس طرف اشارہ کرےاسی طرف جھکنا چاہیے۔ “[1] لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ جسے بےخطرکہہ رہےہیں وہ اس قدرپُرخطرہے کہ بیان نہیں کیاجاسکتاہے کہ کسی انسانی کاوش کو”کتاب اللہ“ کادرجہ دینےکانتیجہ کس قدرخطرناک اورتباہ کن ہے، یہ محتاج اظہارنہیں ہے۔ تفسیرسےمتعلق روایت وحدیث بطوراصل نہیں بلکہ تائیدکی حیثیت سےپیش کرتےہیں وہ قرآن پاک کوبراہ راست قرآن کےذریعہ(اس سےملتی جلتی آیت، نظائر، الفاظ اوراسلوب کی دلالت اورلغت) سمجھنےکی کوشش کرتےہیں اورسیاق وسباق کی روشنی میں اس کانظم متعین کرتےہیں اوران سب کی روشنی میں مفہوم ان کی سمجھ میں آتاہے اس کےمطابق روایت ہوتواسے قبول کرلیتےہیں خواہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہواورجواس کےمطابق نہ ہواسے رد کردیتےہیں خواہ وہ بخاری ومسلم کی صحیح اوراتفاقی احادیث ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ بات کہ قرآن اپنے معنی ومفہوم کو بتلانے میں احادیث کا محتاج نہیں ہے، بظاہر بہت معمولی اور خوش کن ہے، لیکن اسی قدرحقیقت سےدور، پرفریب، اورتباہ کن ہے، حدیث کی تشریعی حیثیت کاانکار، اورجمہورامت کے نقطہ نظرسے انحراف ہے۔ خود قرآن نازل کرنے والے نے اپنے پیغمبرکایہ فرض منصبی بیان کیاہے۔ ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾(النحل :44) ”ہم نے آپ پرقرآن اس لیےنازل کیاہے کہ آپ لوگوں کےسامنے اسے خوب واضح کردیں“۔ اس سے واضح طورمعلوم پرہوتاہے کہ قرآن میں بعض مواقع پرکچھ ابہام، اجمال اورمتعدد معانی کااحتمال ہے، اوربعض آیتیں کسی واقعاتی پس منظرسے متعلق ہیں، جن کی تفصیل، تشریح، تعیین اوروضاحت کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، بالفاظ دیگرآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد احادیث کےبغیراس کی تفصیل اورتعین ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی اس کےلیے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی تشریح اس سے بہترکون سمجھ سکتاہےجس پرخودوہ کتاب نازل ہوئی ہے، چنانچہ مطرف بن شخیر سے کسی نے کہاکہ آپ ہمارے سامنے قرآن کے علاوہ کچھ اورمت بیان کیجیے توانہوں نے فرمایا: (واللّٰه ما نريد بالقرآن بدلا، ولكن نريد من
[1] مقدمہ تفسیرنظام القرآن، ص:45۔