کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 109
علامہ امین احسن اصلاحی بھی جگہ جگہ نظم بیان کرنےمیں ان سے اختلاف کرتےہیں، لہٰذا نظم قرآن کےذریعہ کی گئی تفسیرکوتفسیرالقرآن بالقرآن کےخانےمیں رکھنااورجوحدیث اس کےخلاف نظرآئے اسے قرآن کےخلاف کہہ کررد کردینابہت بڑی غلطی ہے اوراپنی عقل اورکوشش کوقرآن بنانے کےمترادف ہے افسوس کہ علامہ فراہی سے یہ غلطی ہوئی ہے بلکہ ان کاتواصول یہی ہے کہ :اوراحادیث وروایات کےذخیرے سےصرف وہی چیزیں لینی چاہیے جونظم قرآن کی تائید کریں نہ کہ اس کے نظام کودرہم برہم کردیں۔ [1] 2۔ قرآن کی تفسیر قرآن کےذریعہ علامہ فراہی کاخیال ہے کہ”قرآن مجیدبالکل قطعی الدلالۃ ہے، ہرآیت میں مختلف معانی کااحتمال محض ہماری قلت علم اورتدبرکانتیجہ ہے۔ ‘‘[2] اس لیے ان کے نزدیک قرآن مجید اپنی تفسیرکےلیےحدیث کامحتاج نہیں ہے، حدیث سے بےنیازہوکربھی قرآن کوسمجھاجاسکتاہے، ان کے الفاظ یہ ہیں: ” یہاں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قرآن اپنی تفسیر کےلیے ان فروع (یعنی حدیث، تاریخ گذشتہ انبیاء کےمحفوظ صحیفے)کامحتاج نہیں، وہ تمام کتابوں کےلیے خودمرکزومرجع کی حیثیت رکھتاہے، اورجہاں کہیں اختلاف واقع ہوتواسی کی روشنی جھگڑےچکا نے والی بنےگی لیکن اگرتم کوقرآن مجید کی تصدیق وتائید کی ضرورت ہوتوان فروع کی مراجعت سےتمہارےایمان و اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ “[3] علامہ فراہی نظم قرآن کوقرآن ہی کاایک حصہ سمجھتےہیں اوراس کےذریعہ کی گئی تفسیرکوتفسیرقرآن بالقرآن کے خانےمیں رکھتےہیں، اوراس کےذریعہ سے وہ پورےقرآن حکیم کو قرآن حکیم ہی کی روشنی میں سمجھنےکی کوشش کرتےہیں، چنانچہ وہ کہتےہیں کہ: ”میرےنزدیک سب سےبےخطرراہ یہ ہے کہ استنباط کی باگ قرآن مجید کےہاتھ میں دے دی جائے
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص:38۔ التکمیل، ص:20-24 [2] مقدمہ نظام القرآن، ص:135، التکمیل، ص:20-24 [3] مقدمہ تفسیرنظام القرآن، ص:40۔