کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 107
غامدی واصلاحی تحریرات بھری پڑی ہیں بلکہ فراہی صاحب کی تحریرات بھی اس سے خالی نہیں ہیں۔ ہم اپنی بابت یہ دعویٰ اس یقین واذعان کی بنیادپرکررہے ہیں کہ ہمارا موقف کوئی ذاتی موقف نہیں ہے بلکہ وہ ہے جوچودہ سوسال سے امت مسلمہ کا، صحابہ وتابعین کا، مفسرین امت کا، محدثین عظام کا، ائمۂ اعلام کااورعلماء وفقہاءکاچلاآرہاہے۔ یہ موقف کس طرح غلط ہوسکتاہے ؟ یاکوئی اس کی تردید وتغلیط کرنے پرکس طرح قادر ہوسکتاہے؟ ہمیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ اس دورنابکارمیں ’’ عظمت وتقدس قرآن ‘‘یا ’’نظم قرآن ‘‘ کے نام پرامت مسلمہ کے اس چودہ صدسالہ موقف پرشب خون ماراگیاہے، ہم نے اس کے دفاع اور حمایت میں یہ سب کچھ لکھااوراس کی توضیح کی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی اس کاوش پرپورایقین واذعان ہے کہ یہ صحیح ہے اورکوئی فراہی مفکردلائل کی روشنی میں قیامت تک اس کاجواب نہیں دے سکتاہے۔ فکرفراہی کے ردّ میں ایک مطبوعہ مضمون کی تلخیص۔ ان چاراصحاب علم میں سے اول الذکر دوحضرات کی علمی کاوشیں کتابی شکل میں مطبوع ہیں، اہل علم کاان سے استفادہ آسان ہے، اسی لیےان کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ آخرالذکردوحضرات کی تحریریں کتابی شکل میں نہیں ہیں، صرف ایک مجلہ میں چھپی ہیں، اس لیے ہم ان کومحفوظ کرنے کی نیت سے اپنی کتاب کاحصہ بنارہےہیں تاکہ وہ بھی اہل علم کی دسترس میں رہیں، اوراس موضوع پرکام کرنے والے ان سے استفادہ کرتےرہیں۔ ان میں سے پہلا مقالہ جناب اسیرادروی صاحب کاتحریر کردہ ہے۔ اس کاعنوان ہے: ’’فکرفراہی اورمولاناامین احسن اصلاحی ‘‘یہ مقالہ مولانااصلاحی صاحب کے ضمن میں نقل کیاجاچکاہے۔ دوسرامقالہ مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کاتحریرکردہ ہے۔ اس کاعنوان ہے : ’’ علامہ فراہی کاتفسیری منہج ‘‘ قارئین کرام یہ مقالہ اگلےصفحے پرملاحظہ فرمائیں۔