کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 104
مسلمہ کی متفقہ فکرسے انحراف پرمبنی روش کاجائزہ لیاہے، وہ بھی اسی نتیجے پرپہنچے ہیں کہ یہ گروہ بھی منکرین حدیث سے مختلف نہیں ہے بلکہ ہمارے خیال میں ان سے زیادہ خطرناک ہے کہ دوسرے منکرین حدیث توکھلے دشمن ہیں، جن کوامت مسلمہ نےبالکل ردکردیاہے۔ لیکن یہ گروہ آستین کاسانپ ہے جوبظاہراپنابن کراسلام کی جڑیں کھوکھلی کررہاہے۔
ان میں سے چنداہل علم کی تحریریں ہماری نظر سے گزری ہیں۔ اگرچہ ان تحریروں تک ہماری رسائی اس وقت ہوئی جب راقم ”تدبرقرآن“پراپناتنقیدی کام مکمل کرچکاتھااورفراہی صاحب کی فکرپرجائز ےکا کام بھی آخری مرحلے پرتھا۔ تاہم یہ دیکھ کرانتہائی مسرت ہوئی کہ ان سب اہل علم نے مولانافراہی اورمولانااصلاحی ’دونوں استاذ شاگرد‘ کے متعلق حدیث کی بابت وہی موقف اختیاراوربیان کیاہے جوراقم نے اختیاراوربیان کیاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کوتقدم کاشرف وفضل حاصل ہے، گوراقم کوان کی تنقیدات کاعلم پہلے نہیں ہوسکایاآخری مرحلے میں ہوا۔ دوسرافرق یہ ہے کہ ان اکثراہل علم نے اپنےتأثرات اوران کے بارے میں اپنےموقف کااظہاراختصارسے ایک آدھ مضمون کی صورت میں یاچند مضامین کی صور ت میں کیاہے۔
راقم کواللہ نےیہ توفیق دی کہ اس نے مولانااصلاحی کی شرح بخاری (دوجلدیں)اور”تدبرقرآن“پرتفصیلی نقد کیاہے جس سےاس گروہ کی پوری فکراوراس کی خطرناکی وزہرناکی پوری طرح واضح ہوکرسامنے آگئی ہے اور اس کے وہ نہایت تلخ نتائج بھی عیاں ہوگئے ہیں جوفراہی موقف کالازمی نتیجہ ہے، یعنی صحیح احادیث کا انکاراورقرآن کریم کی مان مانی تاویل اوراس میں معنوی تحریف۔
چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ ”تدبرقرآن“من مانی تاویل، تفسیربالرائے(احادیث کاانکاریاان سےگریز کرکے) اورمعنوی تحریفات اورمسلّمات اسلامیہ سے انحراف پرمبنی ہونےکے لحاظ سے ایک”شاہکار“تفسیرہے۔
بہرحال ان اہل علم کی تحریرات اورمضامین سےراقم کوجوبےپناہ مسرت اس بناپرحاصل ہوئی کہ وہ اس میدان میں اکیلانہیں، بلکہ اس کے ہم نوا اوراس کے رازداں اوربھی ہیں، اسے الفاظ میں بیان کرناممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات اہل علم کوجزائے خیرعطافرمائےکہ انہوں نےاس ساکن سطح پرخشت باری کرکے اس میں جنبش پیدا کی اورسرزمین ہندمیں، جہا ں اس فتنے کی پیدائش ہوئی اورافزائش بھی، اس کی سرکوبی کےلیے پہلاپتھر