کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 102
قرآن میں ہواکاوہ سرسری اشارہ کہاں ہے؟ بہرحال یہ استدلال بھی تفصیل طلب ہے، اس لیے اس سے صرف نظرکرتےہوئےان کادوسرابیان ملاحظہ ہو: ”خلاصہ اس ساری تفصیل کا یہ نکلاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے تُندہواکے ذریعے سے نجات بخشی اورفرعون اوراس کی فوجوں کونرم ہواکےذریعے سے ہلاک کردیا، یعنی رحمت اورعذاب دونوں کرشمے ہواہی کے عجیب وغریب تصرفات کے ذریعے سے ظاہرہوئے۔ “ [1] یعنی فراہی صاحب کے نزدیک اس واقعے کی قطعاً کوئی معجزانہ حیثیت نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم کی ایک نہایت واشگاف حقیقت کاکیسا واضح انکارہے۔ گویامولانا فراہی نےمتعددجگہ احادیث کاانکاریاان سے گریز کرکے کئی قرآنی حقیقتوں کومسخ کیااوراس مقام پرماشاءاللہ تورات پرقرآ ن سےبھی زیادہ اعتماد کرتےہوئےایک عظیم قرآنی معجزےکا انکارکر دیا۔ فراہی صاحب کےاصول ستّہ، حدیث اورقرآن دونوں کےانکارکومستلزم ہیں قرآن کریم کی تفسیرکےیہ چھ اصول ہیں جوفراہی صاحب نے بیان کیے ہیں۔ ان میں پہلے پانچ اصول ایسے ہیں کہ ہراصول کامآل اورنتیجہ انکارحدیث ہے، جیساکہ ہم دلائل سےواضح کرآئے ہیں۔ یہ چھٹا اصول، یعنی قدیم آسمانی صحیفے(تورات وغیرہ)ان کے تحریف شدہ ہونےکے باوجود فراہی صاحب کےنزدیک یہ قابل اعتماد اورگوناگوں فوائد کے حامل ہیں۔ اس اصول کے ذریعےسے بھی انہوں نے قرآنی حقائق کابھی انکارکیاہے اوراحادیث کابھی انکارکیاہے۔ تورات کے بیان پرقرآن کریم کےبیان کردہ معجزےکےانکارکی تفصیل توقارئین کرام نےملاحظہ فرمالی، تورات ہی کےبیان پرحدیث-صحیح بخاری کی حدیث-کےانکارکی مثال مولانا فراہی کایہ موقف ہےکہ سعی بین الصفاوالمروۃ کارکنِ حج حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی یادگارنہیں ہے بلکہ یہ بےہودہ روایت ہے اوریہودیوں کی گھڑی ہوئی۔ جیساکہ پہلے اس کاحوالہ گزرچکاہے۔ [2]
[1] تفسیرسورہ ٔ ذاریات، ص:131-132۔ [2] دیکھیے ان کی کتاب ”ذبیح کون ہے؟ص:137۔