کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 100
انفلاق بحرکامعجزہ اور تورات کابیان قرآن کریم میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کاایک نہایت اہم معجزہ انفلاق بحربھی بیان ہواہے، یعنی جب سیدناموسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنواسرائیل کوۃرات کےاندھیرےمیں مصرسےنکال کرلےگئے، فرعون کوپتہ لگاتو وہ اپنالشکرلےکران کے تعاقب میں نکلااوران کے قریب پہنچ گیا، بنواسرائیل نے جب یہ دیکھاتوگھبراگئے، کیونکہ آگےٹھا ٹھیں مارتاہواسمندرتھااورپیچھے فرعون کالاؤ لشکر۔ بنواسرائیل نےموسیٰ علیہ السلام سے کہا:اب تو کوئی راہ فرارنہیں، ہم تومارےگئے، فرعون سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ ﴿قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ (الشعراء:61)سیدنا موسیٰ علیہ السلام بہرحال اللہ کے پیغمبرتھےاللہ کی ذات اوراس کی مدد پر جتنااعتماد ان کوہوسکتا تھا، بنواسرائیل کونہیں ہوسکتاتھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نےپورےاعتمادسے فرمایا: ﴿ قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ (الشعراء : 61، 62)”ہرگزنہیں، یقیناًمیرارب میرےساتھ ہے، وہ ضرورمیری رہنمائی فرمائےگا۔ “ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی اورمدد فرمائی۔ اللہ نے کہا:﴿فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ﴾ (الشعراء : 63)”پس ہم نےوحی کی موسیٰ علیہ السلام کی طرف، اپنی لاٹھی سمندر پر مار ‘‘۔ عربی زبان میں ‘‘فا ‘‘ تعقیب کےلیے ہوتی ہے، یعنی موسیٰ کے یہ کہتے ہی کہ ’’میرا رب میرے ساتھ ہے، وہ ضرور میری رہنمائی فرمائےگا“ ہم نےاس کے معاًبعدہی موسیٰ کولاٹھی مارنے کاحکم دےدیا۔ موسیٰ علیہ السلام نےلاٹھی ماری تو﴿ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ﴾ (الشعراء :61- 63) ”پس(لاٹھی مارتےہی)سمندپھٹ گیا(دوحصوں میں تقسیم ہوگیا)ہرحصہ بڑے پہاڑکی طرح کھڑاہوگیا“۔ یہاں بھی فائے تعقیب ہے۔ یعنی لاٹھی کے مارتےہی بلاتاخیرسمندرکاٹھاٹھیں مارتاہواپانی دوحصوں میں تقسیم ہوکردونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑاہوگیااوردرمیان میں خشک رستہ بن گیا۔ اس فائے تعقیب سے یہ بھی واضح ہورہاہے کہ سمندرکے پھٹ جانے اوردونوں اطراف پانی کے کھڑے ہونےکاواقعہ لاٹھی کے مارنےکے بعدہواہے نہ کہ اس سے پہلے سمندرمیں یہ تبدیلی آئی ہوئی تھی۔ قرآن کریم کے الفاظ کتنےواضح ہیں اوراس کا یہ نظم بھی جوفائے تعقیب سے واضح ہورہاہے، کتنابے اشکال ہے جس سے اس معجزے کی پوری حقیقت سامنے آجاتی ہے۔