کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 99
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔‘‘ کوئی بھی امت رسول یا نبی سے خالی نہیں رہی ہے رسولوں کو اللہ تعالیٰ مستقل شریعت کے ہمراہ ان کی قوم کی طرف بھیجتا تھا جب کہ نبیوں کی طرف اللہ تعالیٰ اس نبی سے قبل کی شریعت وحی کرتا تھا، تاکہ وہ نئے سرے سے سابق شریعت کو جاری کرے۔فرمان الٰہی ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواورطاغوت سے بچو۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:﴿اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ﴾ (فاطر :24 )
’’کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے: ﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا﴾ (المائدۃ:44 )’’ بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو(اللہ کے)فرماں بردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں ۔‘‘
حضرات انبیاء ومرسلین علیہم السلام بھی بشر اور مخلوق ہیں ۔ ان میں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ رسولوں کے سردار اور اپنے نزدیک سب رسولوں سے زیادہ جاہ و مرتبہ رکھنے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ ( الأعراف:188) ’’ فرمادیجیے : میں اپنے فائدے اور نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا۔ اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مؤمنوں کو ڈرانے اور خوش خبری سنانے والا ہوں ۔‘‘
اورفرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ اِِنِّی لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا o قُلْ اِِنِّی لَنْ یُّجِیْرَنِی مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ وَلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن:21،22 ) ’’فرما دیجیے بلاشبہ میں تمھارے لیے کسی نقصان یا کسی بھلائی کا اختیار نہیں رکھتا ہوں ۔فرما دیجیے: یقینا میں ، مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی کبھی پناہ نہیں دے گا اور میں اس کے سوا کبھی پناہ کی کوئی جگہ نہیں پائوں گا۔‘‘
انہیں بھی بیماری ، موت ، ضرورتِ آب و دانہ وغیرہ جیسی دوسری انسانی ضرورتیں لاحق ہوتی ہیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے رب کی توصیف اس طرح کی ہے : فرمان الٰہی ہے :﴿وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ o وَاِِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ [حاشیہ جاری ہے]