کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 94
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] ﴿ وَمَنْ عِنْدَہُ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ o یُسَبِّحُونَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ ﴾ (الأنبیاء: 19 ، 20)
’’جو فرشتے اللہ تعالیٰ کے پا س ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے،اور نہ ہی ملول ہوتے ہیں ، شب وروز اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا بھر ناغہ نہیں کرتے۔‘‘
فرشتوں کی صحیح تعداد کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ صحیحین میں واقعہ معراج میں حضر ت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المعمور دکھایا گیا جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے عبادت کرتے[نماز پڑھتے]ہیں ۔ جب وہاں سے نکل جاتے ہیں تو قیامت تک وہ دوبارہ واپس نہیں آئیں گے۔‘‘ (البخاری:1309۔ مسلم:162 )
[ارکان بالملائکہ کے ارکان]:
فرشتوں پر ایمان لانے کے چار ارکان ہیں :
٭ اول: فرشتوں کے وجود پرایمان ۔
٭دوم: جن ملائکہ کے نام ہمیں معلوم ہو سکے ہیں ان پرنام بنام ایمان رکھنا ، جیسے جبریل ، اور میکائیل علیہما السلام ،[ اور جن کے نام معلوم نہیں ہو سکے ان پراجمالی ایمان کہ وہ فرشتے موجود ہیں ] ۔
٭سوم: فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہوجائے ان پر ایمانمثلاً جبریل امین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی پیدائشی حالت پر دیکھا توآپ کے چھ سو پر تھے جنہوں نے افق کو ڈھانک رکھا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ انسانی شکل اختیار کرسکتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حضرت مریم علیہما السلام کے پاس جاتے ہوئے ایک مناسب آدمی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مجلس میں تشریف فرماتھے تو اس وقت ایسے آدمی کی شکل میں آئے جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اور ان پر سفر کے اثرات بھی نہیں تھے۔ صحابہ کرام میں سے کوئی ایک ان کو پہچانتا بھی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے گھٹنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنی ہتھیلیوں کو رانوں پر رکھ لیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام ‘ ایمان ‘احسان اور علامات ِ قیامت کے متعلق سوال کیے۔ آپ نے جوابات دیے ۔جب وہ چلے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل امین تھے جو تمہیں
چہارم : ان کے اعمال پر ایمان لانا۔ وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بجالاتے ہیں ۔جیسے کہ دن رات بغیر کسی وقفہ کے اور تھکان کے اللہ تعالیٰ کی عبادت و تسبیح میں مصروف رہتے ہیں ۔ [حاشیہ جاری ہے]