کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 84
[1]……………………………………………………
[1] وَالْأَرْضَ بَل لَّا یُوْقِنُوْنَ o أَمْ عِنْدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُصَیْْطِرُوْنَ﴾ (طور:35 تا 37 )’’کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کردیے گئے ہیں یا وہ خود کو پیدا کرنے والے ہیں ؟۔ کیا انہوں نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے ؟بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے ۔کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں ، یا وہ کسی پر غلبہ پاگئے ہیں ؟۔‘‘’’آپ فرماتے ہیں کہ:’’ قریب تھا کہ میرا دل نکل جائے۔ اور یہی پہلا موقع تھا جب ایمان ان کے دل میں جاگزیں ہوا۔‘‘ [البخاری]
یہاں پر مناسب ہوگا کہ ایک مثال بیان کرکے اس مسئلہ کی وضاحت کردی جائے: ’’ فرض کیجیے: آپ سے کوئی انسان ایسے عظیم الشان محل کے متعلق گفتگو کررہا ہو جس کے چاروں طرف باغات ہوں اور اس میں نہریں رواں دواں ہوں ’ اور قالین اور مسند لگے ہوں ۔ ہر طرح کی آرائش اور سجاوٹ سے اس کو چار چاند لگے ہوئے ہوں ۔ اب آپ سے کوئی شخص کہے : اس میں محل میں پائی جانے والی خوبیوں نے آپ کو پیدا کرلیا ہے یا ازخود غیرمتوقع طور پر وجود پذیر ہوگئی ہیں ۔تو یقیناً آپ اس کا انکار کردیں گے ‘اور اس کی بات کو جھٹلائیں گے۔ اور ایسی بات کو حماقت شمار کرو گے۔ تو کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ زمین و آسمان اور افلاک و احوال اور بے مثال نمایاں انتظام والی وسیع کائنات نے اپنے آپ کو وجود دے دیا ہو۔ یا بغیر کسی موجد کے غیر متوقع طور پروجود پاگئی ہوں ۔
[سوم]:وجود باری تعالیٰ پرشرعی دلیل : تمام آسمانی مذاہب [کتب]کا اللہ کے موجودہونے پر اتفاق ہے ۔ مخلوق کے لیے جتنے بھی مصلحت آمیز احکام ان کتابوں میں مذکور ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ احکام ایسے رب کی طرف سے ہیں جو کہ حکمت و الا اور اپنے مخلوق کی مصلحتوں سے آگاہ ہے۔ ان کتابوں کی کائنات سے متعلق وہ تمام خبریں (حالات جن کے گواہ ہیں ) اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ خبریں ایسے رب کی طرف سے ہیں جو اپنی خبر کے مطابق ایجاد کرنے پر قادر ہے۔
[چہارم]:وجود باری تعالیٰ پر حسی دلیل : حسی دلائل دو طرح کے ہیں :
اول: ہم دعا کرنے والوں کی دعا قبول ہونے اور پریشان حال کی مدد کے بارے میں سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں ۔ یہ امور قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں فرمان الٰہی ہے:﴿وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ﴾ (الأنبیاء :76)’’ اور نوح(کا قصہ بھی یاد کرو) جب (اس سے) پیشتر انہوں نے پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔‘‘
اورفرمان الٰہی ہے:﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ﴾(الأنفال:9) [حاشیہ جاری ہے]