کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 83
[1]ایمان کے چھ ارکان ہیں :1.یہ کہ تم اللہ تعالیٰ پرایمان لاؤ[2]:
[1] [بقیہ حاشیہ ]: پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھی جاتی تھیں ۔
[2] ایمان باللہ چارارکان پر مشتمل ہے :
[اول]: وجودالٰہی پرایمان :اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے فطرت سلیمہ عقل اور شریعت دلالت کرتی ہیں ۔
۱ول۔فطرت : اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ بغیر کسی تعلیم و تربیت کے اپنے خالق و مالک پر ایمان رکھ سکتا ہے۔ انسان کی فطرت میں انسان بیرونی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو اسے فطرت سے ہٹا دیتے ہیں ۔ جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے:’’ ہر بچہ فطرت کے مطابق پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی عیسائی اور مجوسی بنادیتے ہیں ۔‘‘[بخاری ]
۲: دوم:عقلی دلیل :اللہ تعالیٰ کے وجود پر یہ ہے کہ : اگلی اور پچھلی تمام مخلوقات کے لیے کسی ایسے خالق کا ہونا ضروری ہے جس نے انہیں وجود بخشا ہو۔کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ یہ مخلوق خود بخود وجود میں آگئی ہو۔اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ان کا وجود غیر متوقع طور پر [کسی حادثہ کے نتیجہ میں ] از خود ہوگیا ہو۔
مخلوق خود وجود پذیر اس لیے نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی چیز خود اپنی ذات کی خالق نہیں ہوتی اس لیے کہ جب وہ خود ہی ناپیدتھی تو وہ کسی دوسرے کو کیسے پیدا کرسکتی ہے؟اور غیر متوقع طور پر اس کا وجود اس لیے نہیں ہوسکتا کہ ہرایجاد کے لیے ایک موجد کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ اس بے مثال اور باہم مربوط نظم ونسق اور اسباب ومسببات نیز تمام کائنات کے درمیان مکمل ربط و ضبط کے ساتھ مخلوقات کا وجود بالکلیہ اس بات کا انکار کرتا ہے کہ یہ غیر متوقع طور پر خود بخود یونہی وجود میں آگئے ہوں ۔
اس لیے کہ جس چیز کا وجود غیر متوقع طور پر ہو اس کا بنیادی طور پر کوئی نظام نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ اپنی بقاء اور ترقی پذیری میں پابند نظام کیوں کر ہوگا؟ لہٰذا جب یہ ممکن نہیں کہ مخلوقات نے خود اپنے آپ کوایجاد کرلیا ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ان کا وجود غیرمتوقع طور پر ہوگیا ہو تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور ان کا کوئی نہ کوئی موجود ہے ‘ اوروہ اللہ رب العالمین ہی ہے۔اس قطعی اور یقینی دلیل کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْْرِ شَیْْئٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ َ﴾ (طور:35 )
’’کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کردیے گئے ہیں ، یا وہ خود بخود ہی پیدا ہوگئے؟‘‘
یعنی وہ بغیر خالق کے نہیں پیدا کیے گئے اور نہ ہی انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کرلیا ہے۔لہٰذا ان کے لیے خالق کا ہونا متعین ہوا۔ اوروہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل آپ کو سورۂ طور کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا:
﴿أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْْرِ شَیْْئٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنََ o أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ [حاشیہ جاری ہے]