کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 82
دوسرا مرتبہ[1]:… ایمان[2]
ایمان کی ستر (70) سے زائد [3]شاخیں [4] یا حصے ہیں پس اس کا سب سے بلند اور اعلیٰ حصہ ﴿ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ کا اقرار اور سب سے ہلکا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز[5] کو دور کرنا ہے اور حیاء داری[6] بھی ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔
[1] دین کے تین مراتب میں سے دوسرا مرتبہ ۔
[2] ایمان کا لغوی معنی ہے : تصدیق کرنا۔ شرعی اعتبار سے ’’ایمان ‘‘ دل سے اعتقاد زبان سے اقرار اور اعضا سے عمل کرنے کو کہتے ہیں [نیکی کے کام کرنے سے بڑھتا ہے اور نافرمانی کے کام کرنے سے کم ہوتا ہے] اس کی بہتر سے زیادہ شاخیں ہیں ۔
[3] [بضع] ’’زائد‘‘ عربی زبان میں بضع کا اطلاق تین سے لے کر نو تک کے عدد پر ہوتا ہے۔
[4] [شعبہ ]شاخ : کسی چیز کا جزء اور حصہ ۔
[5] یعنی ایسی چیز جو گزرنے والے کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہو۔جیسے پتھر کانٹا گندگی اور بدبودار چیز وغیرہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں ۔
[6] ’’حیاء ‘‘ ایک انفعالی صفت ہے۔ جو شرم کی وجہ سے روپذیر ہوتی ہے۔ اور انسان کو خلاف مروت کام کرنے سے روکنے کا سبب بنتی ہے۔
مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث ’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ‘‘ اور پہلے بیان کردہ قول کہ ’’ایمان کے چھ ارکان ہیں ‘‘ کے مابین جمع و تطبیق کی یہ صورت ہے کہ ایمان جب عقیدہ و اعتقاد سے متعلق ہو تو اس کے چھ اصول ہیں جو کہ حدیث نبی میں وارد ہوئے ہیں ۔جب جبریل امین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ ایمان یہ ہے کہ تم : اﷲپراس کے فرشتوں پراس کی کتابوں اس کے رسولوں علیہم السلام پرقیامت کے دن پراورتقدیر کے اچھی اور بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ایمان لاؤ۔‘‘ [متفق علیہ]
اور جب ایمان سے مراد اعمال اور ان کی اقسام ہوں تو پھر اس کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو بھی ایمان سے موسوم کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ﴾ ’’ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع کردے۔‘‘ (البقرۃ :143 )
مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں : یہاں پر ایمان سے مراد وہ نمازیں ہیں جو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی تھیں ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ملنے سے [جاری ہے ]