کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 79
[نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی دلیل]: [1] نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی دلیل اور اس ضمن میں توحید کی وضاحت اس فرمان الٰہی سے ہوتی ہے:
﴿وَمَا أُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُ وا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَوٰۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ القَیِّمَۃِ ﴾ (البینۃ:5 )
’’اور انہیں حکم دیا گیا تھا کہ خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں یکسو ہوکر اورنماز قائم کریں اور زکوٰۃ [2]اداکریں یہی[3] سیدھا محکم دین [4]ہے ۔‘‘
[1] یعنی نماز و زکوٰۃ کے عبادت اور دین کا حصہ ہونے کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ ﴾ (البینۃ:5 )
’’اور انھیں حکم دیا گیاتھا کہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، یکسو ہوکر اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ اداکریں ۔‘‘
اس آیت میں عموم ہے جو تمام اقسام عبادت کو شامل ہے۔پس انسان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ان عبادات کو محض اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرے ‘ اوراتباع شریعت میں باطل سے اجتناب کرتا رہے ۔
[2] یہاں پر خاص کا عطف عام پر ہے۔اس لیے کہ نماز کا قیام ‘ اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی عبادت ہی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دونوں کی اہمیت کے پیش نظر انہیں نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔نماز بدنی عبادت ہے اور زکوٰۃ مالی ۔قرآن کریم میں ان دونوں عبادات کا ذکر ہمیشہ ساتھ ساتھ آیاہے۔
[3] (یہی) سے مراد: خلوصِ اطاعت ‘اور باطل سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ‘نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔
[4] یعنی سیدھی ملت والا دین جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ۔کیونکہ یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا دین سیدھا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ﴾ (الانعام:153 )
’’اور بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے ، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جہاں عبادت ‘ نمازاور زکوٰۃ کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہیں پر توحید کی حقیقت کا بھی ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کا میلان نہ رکھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ عبادت کرنا [جاری ہے]