کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 78
[1]……………………………………………………
……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] اورفرمان الٰہی ہے:﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف:188 )’’فرما دیجیے! میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جواللہ تعالیٰ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی دوسراعبادت کا مستحق نہیں ہے۔ نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی دیگر کوئی ادنیٰ مخلوق۔ ہر قسم کی عبادت صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہی جائز ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام:162، 163 )
’’فرما دیجیے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا ہوں فرمانبردار ہوں ۔‘‘
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق یہ ہے کہ انہیں اسی مقام و مرتبہ پر رکھا جائے جس پراللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز فرمایا ہے۔ یعنی آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
صلوات اللّٰہ و سلامہ علیہ۔
٭٭٭٭٭
[نوٹ]: اس سلسلہ میں ایک واضح حدیث بھی ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے سنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر یہ ارشاد فرمارہے تھے:
(( سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لا تطرونی کما أطرت النصاری ابن مریم فإنما أنا عبدہ فقولوا: عبد اللہ ورسولہ۔))
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے :
’’مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول۔‘‘[اضافی نوٹ از دراوی]