کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 77
کی اس سے رک جانا اور آپ کے تعلیم کردہ طریقہ کے مطابق ا ﷲتعالیٰ کی عبادت کرنا ۔[1]
[1] شہادت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی ہے کہ : اس بات کا زبانی اقرار اور دل سے اس پر ایمان رکھا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ القرشی الہاشمی تمام جنات اور انسانیت کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے ہوئے آخری نبی اور رسول ہیں ۔[مقصد انسانیت کو آپ کے تعلیم کردہ طریقہ کے پورا کیا جائے وہ مقصد] اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات :56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اسی طریقہ پرقبول ہوسکتی ہے جوطریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں ۔فرمان الٰہی ہے : ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا﴾ (الفرقان:1) ’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا بن جائے۔‘‘ اس شہادت کا تقاضا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبروں کی تصدیق کی جائے‘ اور آپ کے حکم کی اتباع اور منع کردہ چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اس طریقہ کے مطابق کی جائے جو آپ نے سکھایا ہے۔ اس شہادت کا تقاضاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ آپ رب یا معبود ہیں ۔یا پھر امور کائنات میں آپ کو کسی قسم کا کوئی تصرف حاصل ہے ۔یا پھر آپ کسی طرح کی عبادت کے حق دار ہیں ۔بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کے مکرم بندے ہیں ‘ آپ کی عبادت نہیں کی جاسکتیآپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اوربذات خود کسی کے لیے نفع یا نقصان کی کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ﴾ ( الانعام:50 ) ’’فرما دیجیے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں پیروی نہیں کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘ پس آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور حکم الٰہی کے پابند ہیں ۔جس بات کا آپ حکم کو ملتا تھا اس کی اتباع کیا کرتے تھے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿قُلْ اِِنِّی لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًاoقُلْ اِِنِّی لَنْ یُّجِیرَنِی مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ وَلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن:21, 22 )’’فرما دیجیے بلاشبہ میں تمھارے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔فرما دیجیے یقینا میں ، مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی کبھی پناہ نہیں دے گا اور میں اس کے سوا کبھی پناہ کی کوئی جگہ نہیں پائوں گا۔‘‘ [جاری ہے]