کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 75
نیزاللہ تعالیٰ کایہ فرمان بھی ہے: ﴿ قُلْ یَـأَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلَیٰ کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ أَ لَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴾(آل عمران:64 ) ’’آپ فرمادیجیے: [1] اے اہل کتاب! آؤ ایسی[2]بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ‘اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے[3] اور اﷲتعالیٰ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں ۔پھر اگر وہ منہ موڑ لیں [4]تو کہہ دیں گواہ رہنا ہم تومسلمان ہیں ۔‘‘[5]
[1] اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے مناظرہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کیا گیا ہے۔ [2] یعنی ایسی بات کی طرف آؤ جوہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ ہم صرف ایک اﷲتعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ اور ہم میں کوئی بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب نہیں بنائے گا۔ اس جملہ میں ’’ہم صرف اﷲتعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے‘‘ یہ لا إلہ إلا اللّٰہ کا ہم معنی کلمہ ہے۔ اوریہ جملہ ’’ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہم اور تم بنیادی طور پر عقیدہ توحید میں ایک جیسے ہیں ۔ [3] یعنی ہم میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کواپنا رب نہ بنائے ‘اوراس کی اس طرح تعظیم کرے جیسے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنی چاہیے۔اور اس طرح عبادت نہ کرے جیسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جانی چاہیے ۔ اور کوئی غیراللہ کے حاکمیت کو تسلیم نہ کرے۔ [4] ’’منہ موڑ لیں ‘‘ یعنی آپ کی پیش کردہ اس دعوت سے اعراض کرلیں ۔ [5] یعنی آپ ان کے سامنے اعلان کردیجیے اور ان کو گواہ بنالیجیے کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے مسلمان ہیں ۔ اورتم لوگوں میں پائی جانے والی سرکشی اور لا إلہ الا اللّٰہ کی دعوت سے روگردانی کے جرم سے پاک ہیں ۔