کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 69
[1][2]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ ]’’وہ نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر ہر طرف پھیلا ہوا ہوگا۔‘‘
[2] یہ استدلال اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے کہ جو کہ اپنی نذریں اور منتیں پوری کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نذر پوری کرنااللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اعمال میں سے ہے ۔ اور جو عمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اس کا کرنا عبادت ہے۔اس کی تائید میں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:
﴿وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا ﴾ ( الانسان: 7 )
’’ اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر ہر طرف پھیلا ہوا ہوگا۔‘‘
یہ جان لینا چاہیے کہ ان نذر ماننے والوں کی جس ’’نذر ‘‘ کے پورا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے اس میں وہ تمام عبادات شامل ہیں جنہیں انسان جب شروع کرتا ہے توپھر انہیں پورا کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:﴿ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ﴾ ( الحج :29 )’’پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور قدیم گھر (بیت اللہ)کا طواف کریں ۔‘‘
’’نذر ‘‘ انسان کا کسی ایسی اطاعت کا اپنے نفس پر لازم کرلینا ہے جو کہ اصل میں واجب نہ ہو۔ایسا کرنا مکروہ ہے۔بعض علمائے کرام نے اسے حرام بھی کہا ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے ۔فرمایا:’’ نذر کوئی بھلائی لے کر نہیں آتی، بلکہ اس کے ذریعہ بخیل سے کچھ مال نکلوا لیا جاتا ہے ۔‘‘ (البخاری:6008 ۔مسلم:1639)
اس کے باوجود اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کوئی نذر مانے تو اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ فرمان نبوی ہے: ’’ جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کرے گا تو اسے چاہیے کہ وہ اطاعت کا کام کر گزرے۔‘‘[جوکوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے تو اسے پورا نہ کرے]۔‘‘(بخاری:6700)
خلاصہ یہ کہ : ’’ نذر ‘‘ کااطلاق عموماً فرض عبادتوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اور ’’خاص نذر ‘‘ پر بھی اور ’’خاص نذر‘‘ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسی چیز اپنے اوپر لازم ٹھہرا لے [جو کہ اس پر اصل میں واجب نہ ہو]۔ علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہ نے نذر کی متعدد اقسام بیان کی ہیں ۔ تفصیل کتب ِفقہ میں موجود ہے۔