کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 66
[1] [غوث]: … اللہ تعالیٰ کو ہی غوث [2]ماننے کی دلیل:
﴿ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ … ﴾
’’جب تم اللہ تعالیٰ سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری اس دعاء کو قبول کرلیا۔‘‘
[1] [بقیہ حاشیہ] کسی واجب سے چھٹکارا حاصل کرسکے تو ایسے شخص کوپناہ دینا جرم ہے۔
[2] استغاثہ:… اس کا معنی ہے: ’’مدد‘‘سہارا و آسرا طلب کرنا ۔ یعنی مشکلات اور ہلاکت خیز چیز سے نجات طلب کرنا۔ اس کی کئی اقسام ہیں :
اوّل:… اللہ تعالیٰ سے استغاثہ : یہ سب سے افضل وکامل ترین عمل اورانبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کا طریقہ ہے۔ اس کی دلیل شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اس فرمان الٰہی سے پیش کی ہے: ﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ﴾ (الأنفال:9 )
’’اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔‘‘
یہ غزوہ بدر کا واقعہ ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہزار مشرکین کے مقابلہ میں تین سو دس سے کچھ زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو لاکھڑا کیا ۔ اور جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر ایک نظر ڈالی تو اپنے اللہ عزوجل سے دعا کرنے کے لیے خیمہ میں چلے گئے اور قبلہ رو ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے لگے : اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے ‘اسے پورا فرما۔ اے اللہ ! اگر تو اہل اسلام کے اس چھوٹے سے گروہ کو ہلاک کردیا تو زمین پر کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا۔‘‘ آپ برابر ہاتھ اٹھاکر اپنے رب سے دعا کرتے اور مدد طلب کرتے رہے۔ یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے آپ کی چادر سرک گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی چادر پھر آپ کواوڑھا دی اور عرض گزار ہوئے :’’ اے اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کی دعا کافی ہوگئی۔ وہ ضرور آپ سے اس وعدہ کو پورا فرمائے گاجو اس نے آپ سے کیا ہے۔‘‘
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
دوم:… مردوں سے یا غائبین سے مدد طلب کرنا‘جو کہ کسی کی مدد کرنے پر قدرت بھی نہیں رکھتے۔ ایسا کرنا شرک ہے۔ کیونکہ ایسی مددوہی طلب کرسکتا ہے جو ان کے لیے کائنات میں مخفی[اور ما فوق الاسباب] تصر ف کا عقیدہ رکھتا اور انہیں حق ربوبیت دیتا ہو۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِطئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾ (النمل: 62) ’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور تکلیف کو دور کرتا[حاشیہ جاری ہے]