کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 59
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (المائدۃ: 23)’’ اور اگر تم سچے مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو۔‘‘
جب بندہ اللہ تعالیٰ پر اپنے توکل میں سچا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی جملہ پریشانیوں میں اس کے لیے کافی ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے : ﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ﴾ (الطلاق: 3)
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرے گااللہ تعالیٰ اسے کافی ہوگا۔‘‘اور پھراللہ تعالیٰنے اپنے اوپر توکل کرنے والے کواس فرمان سے اطمینان دلایاہے : ﴿ اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ﴾ (الطلاق:3)
’’اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔‘‘ ایسے انسان کو کوئی چیز اپنے ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتی۔
[توکل کی اقسام]:… توکل کی کئی اقسام ہیں :
۱۔ اول: اللہ تعالیٰ پر توکل : جو کہ ایمان باللہ کے کمال اور صداقت کی علامت ہے۔ یہ توکل واجب ہے۔اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔اس کی دلیل اوپر گزر چکی ہے۔
۲۔دوم:’’ سری توکل ‘‘: یہ ہے کہ نفع فراہم کرنے اور ضرر دور کرنے میں کسی میت [یا بے مقدور] پر توکل کیا جائے۔یہ شرک اکبر ہے۔ کیونکہ ایسا توکل صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو کہ اس میت [یامتوکل علیہ] کو کائنات میں تصرف و قدرت سے بہرہ ور سمجھتا ہو خواہ ایسا عقیدہ اللہ کے کسی [نبی یا] ولی سے ہو یا پھر اللہ کے کسی دشمن طاغوت سے۔
۳۔سوم: غیر اللہ پرایسی چیزوں کے بارے میں توکل و اعتماد رکھنا جس پر کوئی ایک قدرت و تصرف رکھتا ہو۔ اور اس توکل کے ساتھ متوکل علیہ کے مرتبہ کی بلندی اور اپنے مرتبہ کی پستی کااحساس بھی ہو۔مثلاً : کسی غیر کے اوپرحصول معاش وغیرہ کے سلسلہ میں اعتماد کرنا۔ غیر کے ساتھ قلبی تعلق کی شدت اور اس کے اوپر اعتماد کرنے کی وجہ سے یہ توکل شرک اکبر کی ایک قسم شمار ہوگا۔ ہاں اگر وہ غیر پر اعتماد و بھروسہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے جملہ اسباب معاش میں سے ایک سبب خیال کرتاہو‘اور اس کو اس معاملہ کی قدرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ذریعہ سمجھتا ہو تو اس میں کو ئی حرج والی بات نہیں ۔ اس لیے کہ ایسے امور میں غیر کا دخل بحیثیت ایک سبب کے واضح ترین چیزہے۔
۴۔ چہارم : غیر پر کسی ایسے معاملہ میں اعتماد و بھروسہ کرنا جس میں خود توکل کرنے والا بااختیار ہو ‘ مثلاً غیر کوکسی ایسے معاملہ میں نائب بنانا جس میں نیابت جائز ہو توکتاب و سنت اور اجماع کی روشنی میں اس میں کچھ حرج نہیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا: [اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے]: ﴿یٰبَنِیَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْہِ﴾ (یوسف87)
’’ اے میرے بیٹو!جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو ۔‘‘ [حاشیہ جاری ہے]