کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 57
[1] [خوف]: …خوف1 کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ فَـــلَا تَخَافُوْہُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 175)
’’تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو ۔‘‘[2]
[1] [بقیہ حاشیہ] عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ﴾
’’بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
[2] ’’خوف‘‘ ڈر کو کہتے ہیں ۔ڈر وہ اثر ہے جو کسی متوقع نقصان‘ ہلاکت یا تکلیف کے اندیشہ سے طاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولیائے شیطان سے خوف کھانے سے منع کیا ہے ‘ اور صرف اپنی ہی ذات سے خوف کھانے کا حکم دیا ہے۔
[خوف کی اقسام ]:خوف یا ڈر کی تین اقسام ہیں :
۱۔ پہلی قسم : فطری خوف: جیسے انسان کا دروندوں سے آگ سے ‘اور غرق ہونے سے خوف کھانا ۔ ایسے خوف کی وجہ سے بندہ قابل ملامت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ﴾ (القصص:18)
’’ پھر صبح سویرے خطرے کو بھانپتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے۔‘‘
شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کے مطابق یہ خوف اگر ایسا ہو کہ اس کی وجہ سے ترک واجب یا ارتکاب حرام کا سبب بن جائے‘ تو ایسا کرناحرام ہے۔اس لیے کہ جو چیز کسی واجب کے ترک یا حرام کے ارتکاب کا سبب بن جائے تو وہ بھی حرام ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے: ﴿ فَـلَا تَخَافُوْہُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: 175)’’تم ان سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنا لائق تعریف بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔
قابل تعریف خوف : وہ ہے جو انسان اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مابین اس طرح حائل ہوجائے کہ انسان کو واجبات پر عمل کرنے اور محرمات کو ترک کرنے پر ابھارتارہے۔ اگر خوف سے یہ مقصد حاصل ہوجائے تو دل کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے ‘ اوراللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید سے معمور ہوجاتا ہے۔
قابل مذمت وہ خوف ہے جو بندے کواللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی دلائے اورما یوسی تک پہنچا دے۔ جس کے نتیجہ میں بندہ حسرت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے اور خود کو بے یار و مدد گارر سمجھنے لگتاہے۔ اور کبھی مایوسی کی شدت کی وجہ سے انسان گناہوں میں سرکشی کی حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔
۲۔دوسری قسم: خوف ِ عبادت: کسی سے اتنا خوف کھانا کہ ڈر کے مارے [حاشیہ جاری ہے]