کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 52
اور آسمان کو چھت بنایا[1] اور آسمان سے پانی اتارا [2]اور اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی[3] خبردار!اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر نہ کرو[4]حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔‘‘[5]
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ [6]فرماتے ہیں :’’ان چیزوں کو پیدا کرنے والا ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔‘‘
[1] یعنی ہمارے اوپر کیونکہ چھت ہمیشہ اوپر ہی ہوتی ہے۔ گویاکہ آسمان زمین والوں کے لیے چھت ہے۔اور یہ انتہائی محفوظ چھت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَ جَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِہَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ (الانبیاء:32 ) ’’آسمان کو مضبوط چھت بھی ہم نے ہی بنایا۔ لیکن لوگ اس کی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے۔‘‘
[2] یعنی اتنی بلندی سے تمہارے لیے پاکیزہ پانی اتارا، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّ مِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ﴾ (النحل: 10)
’’ وہی ہے جس نے اتارا آسمان سے تمہارے لیے پانی اس سے پیتے ہو اور اسی سے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں [تم اپنے جانور]چراتے ہو۔‘‘
[3] یعنی تمہارے لیے اس کی عطا اور نوازش ہے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایاہے: ﴿مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِاَنْعَامِکُم﴾۔[النحل ۱۰]’’یہ سب کچھ تمہیں اور تمہارے مویشیوں کوفائدہ پہنچانے کے لیے ہے ۔‘‘
[4] یعنی وہ اللہ تعالیٰ جس نے تمہیں اورتم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا‘زمین کو تمہارے لیے بچھونا بنا دیا ‘ آسمان کوتمہارے لیے چھت بنادیا‘اور تم لوگوں کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور پھر اس کے ذریعہ سے تمہیں پھلوں سے روزی عطا کی اس ذات کے برابر کسی کو نہ سمجھو کہ تم ان کی ایسے بندگی کرو جیسے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی جاتی ہے ‘ اورتم ان سے ایسے محبت کرتے ہو جیسے اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے۔ یہ بات تمہارے لیے نہ ہی عقل کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔
[5] یعنی تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے برابر اور اس کا ہمسر کوئی نہیں ۔پیدا کرنا رزق دینا ‘تدبیر کرنا سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے ‘ لہٰذا عبادت میں کسی کو بھی اس کا شریک نہ بناؤ ۔‘‘
[6] اسماعیل بن عمر القرشی ‘ ابو الفداء ‘ عماد الدین المعروف بابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ۔آپ دمشق کے رہنے والے تھے۔ مشہور حافظ حدیث تھے۔ آپ کی مشہور تفسیر ابن کثیر اور تاریخ میں ’’البدایہ و النہایہ ‘‘ مشہور ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی آپ کی کئی ایک مشہور تصنیفات ہیں ۔ آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں ۔ ۷۷۴ ہجری میں آپ نے وفات پائی ۔