کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 51
[1] اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان[2]ہے : ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن o الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآئَ بِنَائً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَـلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ( البقرہ:21,22) ’’اے لوگو! [3]اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیداکیا،[4] تاکہ تم پرہیزگار[5]بن جاؤ۔جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش[6]
[1] [بقیہ حاشیہ ]اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوااللہ تعالیٰ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔‘‘چنانچہ ’’رب‘‘ ہی معبود برحق ہے ۔ وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ عبادت حقہ کا تمام استحقاق صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ رب ہیں ۔ اس لیے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسوں کو رب بنالیا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہیں جو حقیقت میں رب نہیں ۔ حقیقی رب تو وہی ہے جو خالق و مالک اور تمام معاملات کا مدبر و متصرف ہے۔ [2] یعنی اللہ تعالیٰ کے مبعود برحق اور مستحق عبادت ہونے کی دلیل یہ آیت ہے۔ [3] یہ خطاب تمام نوع بنی انسان کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے برابر نہ سمجھیں ۔اس کی وضاحت اس آیت کے اندر موجود ہے چونکہ مخلوق کو پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ‘ تو عبادت کا مستحق بھی وہ اکیلا ہی ہے۔ [4] یہ فرمان الٰہی کہ:’’ جس نے تم لوگوں کو پیدا کیا‘‘ آیت کا یہ حصہ سابقہ اجمال کی تفصیل بیان کررہا ہے ۔ مرادیہ ہے کہ تم لوگ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت اس لیے کرو کہ اس نے تم لوگوں کو پیدا کیا ۔یعنی اس کے رب اور خالق ہونے کی وجہ سے اس کی عبادت تم پر واجب ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں : جو شخص اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہو اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ تنہااللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرے ورنہ اس قول اور فعل میں اختلاف لازم آئے گا۔ [5] ’’تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘پرہیز گاری کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اتباع کرے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان سے رک جائے تاکہ وہ عذاب الٰہی سے بچ سکے۔ [6] زمین کو بچھونا بنایا ‘اور اسے ہموار کردیا۔جس سے بغیر مشقت اور دشواری کے ہم استفادہ کر سکتے ہیں گویا کہ زمین ہمارے لیے بچھونا ہے جس پر انسان سوتا ہے۔