کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 49
[1]اس کی دلیل[2] اللہ تعالیٰ کا یہ فرما ن ہے :
﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِِنْ کُنْتُمْ اِِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾
’’اور دن رات اور سورج اورچاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ تعالیٰ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے۔‘‘ (فصلت:37)
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖ اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ( الاعراف: 54)
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے پھروہ عرش پر قائم ہوا وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو
[1] [بقیہ حاشیہ] ہے۔ وہ کمزور پیدا کیا جاتا ہے۔پھر اس کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے ‘یہاں تک کہ جوانی مکمل ہونے کے بعد وہ پھر کمزوری کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ فتبارک اللّٰہ أحسن الخالقین ۔
[2] اس بات کی دلیل کہ دن اور رات ‘ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرما ن ہے :﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ﴾ ’’اور دن رات بھی اسی کی نشانیوں میں سے ہیں ۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہے کہ دن اوررات اس کی ان واضح علامات میں سے ہیں جو اپنے مدلول کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ۔اور رات اور دن بذات خود علامات ہیں اور ان کے مابین پائے جانے والے اختلافات بھی اور ان کے اندر موجود انسانی مصلحتیں اور انسان کے حالات کا الٹ پھیر بھی۔سورج اور چاند کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان دونوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں ۔ان کی گردش میں بھی اور انتظام و انصرام میں بھی۔ان میں انسانی مصلحتوں کی علامات بھی ہیں جوکہ چاندو سورج اوران کی گردش اور انتظام کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہیں ۔اور جن سے بہت سی مضرتوں کاازالہ ہوتا ہے۔