کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 48
[1]اس کی نشانیوں میں سے دن اوررات سورج اور چاند ہیں ۔ اور اس کی مخلوقات میں سے سات زمینیں اور سات آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے[2] سب ہیں ۔
[1] [بقیہ حاشیہ…] بہر صورت اللہ تعالیٰ اپنی تکوینی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے۔ تکوینی یا کونی نشانیاں اس کی وہ عظیم تر مخلوق اور اس مخلوق میں پائی جانے والی وسیع تر نشانیاں ہیں جو کہ اس کی عجیب و غریب کارکردگی اور زبردست حکمت سے عبارت ہیں جیسے کہ وہ اپنی شرعی نشانیوں اور ان میں موجود عدل و انصاف اور ان کے مصلحتوں پر مشتمل اور فساد سے دور ہونے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے:
’’ہر ایک چیز میں اس کی نشانی موجود ہے جو دلالت کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔‘‘
[2] اللہ تعالیٰ کی یہ تمام نشانیاں اس کی کمال قدرت کمال حکمت اور کمال رحمت کی دلیل ہیں ۔چنانچہ سورج بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب سے اسے پیدا کیا ہے وہ ایک منظم اور انوکھے سفر میں رواں دواں ہے اور ایسے ہی رواں دواں رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جہاں کے خاتمہ کا حکم ہوجائے۔ وہ اپنی اس متعینہ مدت تک محو سفر رہے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ﴾ ( یس:38)
’’اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ زبردست خبردار کا اندازہ کیا ہوا ہے ۔‘‘
سورج اپنی جسامت اور تاثیر کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔اس کی جسامت بہت بڑی ہے۔اور اس کے اثرات و فوائد اجسام اشجاردریاؤں اورسمندروں وغیرہ کو پہنچ رہے ہیں ۔ جب ہم اس عظیم نشانی یعنی سورج کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کے اور ہمارے درمیان حائل بے انتہا دوری کے باوجود ہم اس کی حرارت محسوس کرتے ہیں ۔پھر اگراس کے اندرپیداکی گئی اس زبردست روشنی کے اثرات پر نظر ڈالیں تواس کے ذریعہ لوگوں کے لیے طرح طرح کی دولت کی بہتات پاتے ہیں ۔دن میں لوگ دوسری روشنی سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔اور اس سے لوگوں کے لیے کثرت مال جیسی دیگر بڑی بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں ۔پس یہ چیز بھی ان بے شمار نشانیوں میں سے ہے جن میں سے کچھ کا ادراک ہم کرسکتے ہیں ۔اور ایسے ہی چاند بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے‘اور اس کی منزلیں مقرر ہیں ۔ہر رات میں اس کی ایک منزل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِ یْمِ﴾ ( یس:39)
’’ اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔‘‘
چنانچہ جب چاند ظاہر ہوتا ہے تو وہ چھوٹا سا ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ بڑا ہوتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ مکمل چاند بن جاتا اورپھر دھیرے دھیرے کم ہونے لگتا ہے۔ہو بہو یہی انسان کاعالم بھی [جاری ہے ]