کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 47
’’تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو بھی چیز ہے اس کا شمار عالم (جہان) میں ہوتا ہے۔ اور میں بھی اسی عالم میں سے ایک ہوں ۔ [2]
اور اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟[3]
تو کہو : اس کی آیات اور اس کی مخلوقات سے۔[4]
[1] تمام مخلوق کے مربی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہیں ۔اس پر مؤلف رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الفاتحہ:1)’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کے رب ہیں ۔‘‘ یعنی کمال و جلال اورعظمت کی خوبی اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے۔ ہر عالم کی پرورش کرنے والا اور ان پر اپنی نعمتیں کرنے والا اور ان کا خالق ومالک اور اپنی مرضی کے مطابق اس کا انتظام و انصرام کرنے والا صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
[2] عالم:…اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز ایک عالم ہے۔انہیں عالم اس لیے کہا جاتاہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اور اپنے منتظم کی ایک نشانی اورعلم ہے۔ چنانچہ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی نشانی اور علامت پائی جاتی ہے جو اس کے ایک ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ میں جو اس بات کا جواب دے رہا ہوں ، اسی عالم کا ایک فرد ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ میرا مربی ہے، اس لیے مجھ پر واجب ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کروں ۔
[3] یعنی جب تم سے کہا جائے کہ:تم نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟ تو تم کہو:میں نے اس کو اس کی نشانیوں اور اس کی مخلوقات کے ذریعہ سے پہچانا۔
[4] نشانیاں : آیات کا ترجمہ ہے جو کہ آیت[نشانی] کی جمع ہے۔کسی چیز کی نشانی وہ ہوتی ہے جو اس چیز کی طرف رہنمائی کرتی اور اسے واضح کرتی ہو۔اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دو طرح کی ہیں :
۱۔کونی نشانیاں ۲۔شرعی نشانیاں ۔
(۱)کونی نشانیوں سے مراد تمام مخلوقات(کائنات کی ہر ایک چیز)ہے۔
(۲)شرعی نشانیوں سے مراد وحی الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل کی ہے۔ اس بنیاد پر مؤلف رحمہ اللہ کاقول’’ اس کی نشانیوں اور مخلوقات کے ذریعہ سے‘‘ یہ خاص کا عطف عام پر کے باب سے ہے بشرطیکہ ہم نشانیوں سے مراد کونی اور شرعی دونوں طرح کی نشانیاں لیں ۔ اور اگر نشانیوں سے مراد صرف شرعی نشانیاں لیں تو پھر اس صورت میں یہ قول عطف غیر کی قبیل سے ہوگا۔ [حاشیہ جاری ہے ]