کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 44
تو کہیے: میرا رب اللہ ہے جس نے مجھے پالا ہے اوروہی تمام جہانوں کا رب اور ان پر ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰاتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾( آل عمران 190) ’’ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ، اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ﴾ (یونس:6)’’ رات اور دن کے آنے جانے میں اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں ۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَ بَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ﴾ (البقرۃ:164) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلنے میں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل کیااور پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان اس کے حکم کا تابع ہےیقیناً عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ انسان کے لیے رب کی معرفت کے اسباب میں سے ایک سبب اور طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شرعی نشانیوں میں غور و فکر کرے اس سے مراد وہ وحی ہے جو انبیا کرام اور مرسلین عظام علیہم السلام پر آتی رہی۔ اس وحی میں کتنی ہی عظیم الشان مصلحتیں ہیں جن پر دنیاو آخرت میں مخلوق کی بقا کا دارو مدار ہے ۔ جب انسان ان آیات اور ان میں موجود علم و حکمت میں غور وفکر سے کام لے کر ان کے نظم وضبط پر مطلع ہوگا تو انہیں بندوں کی مصلحت کے مطابق پائے گا۔ اور اس طرح اسے اپنے پروردگار کی معرفت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾(النساء: 82)’’ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل مؤمن کے دل میں اپنی ایسی معرفت ڈال دیتا ہے گویاکہ وہ اپنے رب کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔جبریل امین نے جب پوچھا تھا:احسان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح سے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ (مسلم:8 عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )