کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 43
جب آپ سے پوچھا جائے کہ وہ تین اصول [1]کون سے ہیں جن کی معرفت حاصل کرنا انسان پر واجب ہے؟ [2]
تو یوں کہیے:انسان کا اپنے رب کی معرفت حاصل کرنا ۔[3]
[1] اصول اصل کی جمع ہے۔اصل اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کسی چیز کی بنیاد رکھی جائے۔دیوار کی اصل اس کی بنیاد کو کہا جاتا ہے۔درخت کی بنیاد اصل وہ حصہ ہے جس سے شاخیں پھوٹتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآئِ﴾ (ابراہیم:24)’’کیاآپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ پاک کی ایک مثال بیان کی ہے، گویا وہ ایک پاک درخت ہے کہ جس کی جڑ مضبوط اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔‘‘
ان تین اصولوں کے ذریعہ مؤلف رحمۃ اللہ علیہ ان امور کی طرف اشارہ کررہے ہیں جن کے متعلق انسان سے اس کی قبر میں سوال کیا جائے گا۔یعنی تمہارا رب کون ہے؟۔ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟
[2] یہ مسئلہ مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے سوالیہ پیرایہ میں بیان کیا ہے مقصد یہ ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ایک عظیم مسئلہ اور اصول ہے۔فرماتے ہیں : یہ تینوں وہ اصول ہیں جن کی معرفت انسان پر واجب ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تدفین اور دوست و احباب کے چلے جانے کے بعد میت سے اس کی قبر میں انہی تین اصولوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے اور اسے بٹھائیں گے اور اس سے پوچھیں گے:تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟تو مؤمن کہے گا:’’میرا رب اللہ تعالیٰ ہے میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔‘‘اگردین کے سلسلہ میں شکوک و شبہات کا شکار، یا منافق ہوگا تو کہے گا:ہائے ہائے میں نہیں جانتا ‘لوگوں کو میں نے جو کہتے سنا تھا وہی کہتاتھا۔‘‘
[3] اللہ تعالیٰ کی معرفت کئی اسباب کی بنیاد پر ہوسکتی ہے:اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غورو فکرکرنا:یہ غور و فکر اور سوچ وبچار اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت تک لے جائے گی۔ساتھ ہی اسے اللہ تعالیٰ کی عظیم بادشاہی اس کی مکمل قدرت اوراس کی رحمت و حکمت کی معرفت بھی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ﴾ (الاعراف:185) ’’اور کیا انہوں نے آسمان و زمین کی حکومت اور جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، ان میں کبھی غور نہیں کیا۔‘‘اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا﴾ (سبا:46) ’’ آپ ان سے فرمادیں کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے واسطے تم دو دو مل کر اور اکیلے اکیلے رہ کر خوب سوچو۔‘‘ [حاشیہ جاری ہے]