کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 39
[1]سب سے بڑی چیز جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ اس کی توحید ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی عبادت میں یکتا رکھنا[2]اور سب سے بڑی بری چیز جس سے منع کیا ہے، وہ شرک
[1] [بقیہ حاشیہ]’’ آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب رحمن کے حضور غلام بن کر آئیں گے۔‘‘
عبادت یہ قسم مؤمن وکافر اور نیک و فاجر ہر ایک کو شامل ہے۔
2۔دوسری قسم:…شرعی عبادت:یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔یہ قسم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیاری طور پر کرتے ہیں ۔اور انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے لائے ہوئے احکام کی اتباع کرتے ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا﴾ (الفرقان:36)
’’ اور رحمن کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں ۔‘‘
پہلی قسم کی عبادت میں انسان قابل تعریف نہیں ۔کیونکہ وہ اس کا اپنا فعل نہیں ۔ البتہ اچھے حالات پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا اور مصیبت کے وقت صبر کرنا ضرور قابل تعریف ہے۔جب کہ دوسری قسم کی عبادت پر انسان یقینا قابل تعریف ہے۔
[2] لغت کے اعتبار سے توحید وَحَّدَ یُوَحِّدُ کا مصدر ہے۔یعنی ایک کرنا۔توحید کاوجود نفی اور اثبات کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا۔یعنی جسے ایک کہا گیا ہے یا ایک جانا گیا ہے، اس کے علاوہ ہر ایک کی نفی کی جائے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں :انسان کی توحید صرف اس صورت میں مکمل ہوسکتی ہے جب وہ اس بات کی گواہی دے کہ ایک اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ۔ پس اس کلمہ کے اقرار میں انسان عبودیت کو صرف ایک اللہ تعالیٰ مبعود برحق کے لیے ثابت کرتا ہے اور اس کے علاوہ ہر ایک سے عبودیت کی نفی کرتا ہے۔
توحیدکی اصطلاحی تعریف مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کی ہے:’توحید یہ ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔‘‘ یعنی اللہ وحدہ لاشریک کی توحید بجالائی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے۔نہ ہی کسی نبی یا رسول کواور نہ ہی کسی مقرب فرشتہ کونہ ہی کسی رئیس کو اور نہ ہی کسی بادشاہ کو اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو۔ بلکہ محبت و تعظیم کے ساتھ خوف اور امید رکھتے ہوئے صرف اس ایک اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی جائے۔یہاں پر شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی مراد وہ توحید ہے جسے منوانے کے لیے رسولوں کو مبعوث کیا گیا۔یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے انبیائے کرام علیہم السلام کی راہوں میں ان کی اقوام نے روڑے اٹکائے تھے۔
توحید کی ایک اور عام تعریف بھی ہے۔ وہ یہ کہ : اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں میں ایک جاننا [حاشیہ جاری ہے]