کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 36
[1]تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَ لَا اِِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ:22) ’’ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے بھلے وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ ( قبیلے )کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کے لشکر ہیں آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں ۔‘‘
[1] [بقیہ حاشیہ] بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ ﴾ (الممتحنۃ : 4) ’’ تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے، جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ’’ہم تم سے قطعی بیزار ہیں اور ان سے بھی جنہیں تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پوجتے ہو۔ ہم تمہارے (دین کے) منکر ہیں ۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری پیدا ہوچکے تا آنکہ تم اللہ تعالیٰاکیلے پر ایمان لے آؤ۔‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے والوں سے دوستی اور ان کی خاطر داری اس کی دلیل ہے کہ انسان کے دل میں ایمان کمزور ہے۔ کیونکہ یہ بات غیر معقول ہے کہ انسان کسی ایسے سے محبت کرے جو اس کے دوست اور محبوب کا دشمن ہو۔ کافروں سے دوستی کی صورت یہ ہے کہ کفر و ضلالت پر ہونے کے باوجود ان کی مدد اور دستگیری کی جائے۔ اوران سے بایں طور محبت کی جائے کہ وہ اسباب و وسائل اختیار کیے جائیں ، جن سے ان کفار کی دلچسپی وابستہ ہو۔ سمجھ لو کہ جو ایسا کریں وہ ان سے محبت رکھتے ہیں ۔ اور ہر صورت میں ان کی دوستی کے خواہش مند ہیں ۔اور یہ چیز بلاشک ایمان کے منافی ہے۔ اس سے ایمان بالکل ختم بھی ہوسکتا ہے۔یا کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس ایسے لوگوں سے دشمنی رکھنا ایک مؤمن پر واجب اور ان سے بغض رکھنا اوران سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے جواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہیں ۔ چاہے وہ ان کے انتہائی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن اس کا معنی ہر گز یہ نہیں کہ یہ چیز ان کی بھلائی چاہنے اور ان کو حق کی دعوت دینے میں بھی مانع ہے۔