کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 31
[1]پس جس نے رسول کی اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا۔[2]
[1] [بقیہ حاشیہ] النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا o وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا o رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَـــلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾(النساء:163 تا 165)۔’’یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح ( علیہ السلام ) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم و اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور عطا فرمائی۔ اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بہت سے رسولوں کے واقعات نہیں بیان کیے اور موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ہم نے انہیں رسول بنایا، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے۔‘‘ ہمارے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی رہنمائی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے محبوب ومرغوب طریقہ کے مطابق اس کی بندگی کرنا ممکن نہیں ۔کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام نے ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی تعلیم دی ہے ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ اس نے مخلوق کی طرف رسول مبعوث فرمائے جو انہیں ڈرائیں اور نیک کام کرنے پر خوش خبریاں سنائیں ۔ جیساکہ فرمان الٰہی ہے: ﴿ اِِنَّا اَرْسَلْنَا اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنَاہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا ﴾ ( المزمل :15 ،16) ’’بیشک ہم نے تمہاری طرف تم پر گواہی دینے والا رسول بھیج دیا ہے جیسے کہ ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا۔پھر فرعون نے رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اسے بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔‘‘ [2] یہ ایک یقینی بات ہے جس کو مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ او احادیث نبویہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ٭ … اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ oوَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ﴾ [آل عمران: 132،133 ] ’’اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ [حاشیہ جاری ہے ]