کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 29
اور اسی نے ہمیں روزی دی ہے۔[1]
[1] اس مسئلہ پر کتاب وسنت اورعقل سے دلائل بہت زیادہ ہیں ۔
کتاب اللہ سے دلائل:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾ (الذاریات: 58) ’’اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰہُ ﴾ (سبا:24)
’’پوچھئے کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟ (خود) جواب دیجیے کہ اللہ تعالیٰ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہَ﴾ (یونس:31)۔’’آپ پوچھیں وہ کون ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے؟ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟وہ ضرور کہیں گے کہ:’’اللہ تعالیٰ ۔‘‘ اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہوئی ہیں ۔
سنت سے دلیل:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:’’ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بچے کے متعلق چار چیزیں لکھ دے:اس کا رزق اس کی عمر اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگایا بد بخت۔‘‘ (متفق علیہ)
جب کہ اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی ہے، اس لیے کہ کھانے اور پینے کے بغیر ہم زندگی نہیں گزارسکتے۔ یہ کھانا اور پینا بھی تو اللہ تعالیٰ کی ہی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَرَاَیْتُمْ مَا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ o لَوْ نَشَائُ لَجَعَلْنَاہُ حُطَامًا فَظَلَلْتُمْ تَفَکَّہُوْنَ o اِِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَائَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُوْنَ o لَوْ نَشَائُ جَعَلْنَاہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ ﴾ (الواقعہ: 63 تا 70)
’’اچھا پھریہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہواسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ۔اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی رہ جاؤ کہ ہم پر تاوان ہی پڑ گیا بلکہ ہم بالکل محروم ہی رہ گئے۔اچھا یہ تو بتاؤ کہ جوپانی تم پیتے ہو۔ اسے بادلوں سے تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں ۔اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کڑوا زہر کر دیں ، توپھربھی تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے؟۔‘‘
ان آیات میں وضاحت ہے کہ آب و دانہ جوکچھ میں ہمیں جو رزق ملتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کا ہی دیا ہوا ہے۔