کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 28
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات :56) ’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘
ان کے علاوہ بھی دیگر کئی ایک آیات ہیں ۔
جبکہ ہمارے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے پر کئی ایک عقلی دلائل بھی موجود ہیں ۔ بعض کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ملتا ہے:﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ﴾ (الطور:35)
’’ کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا خود پیدا کرنے والے ہیں ۔‘‘
انسان نے خود اپنے آپ کو تو پیدا نہیں کیا، کیونکہ انسان اپنے وجود سے پہلے معدوم تھا۔ معدوم نہ ہی خود کچھ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کو ایجاد کرسکتا ہے۔ اور انسان کو اس کے باپ یا ماں نے یا مخلوق میں سے کسی ایک نے بھی پیدا نہیں کیا ۔ اور انسان کسی پیدا کرنے والے کے بغیر خود بخود اچانک وجود میں نہیں آگیا، اس لیے کہ ہر مخلوق کے لیے ایک خالق کا ہونا ضروری ہے۔پس اس بے مثال نظام اور اس غیر منقطع تسلسل کے ساتھ مخلوق کا وجود اس بات کی قطعی نفی کرتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا وجود بغیر کسی خالق کے ہوگیا ہو۔کیونکہ خود بخود وجود میں آجانے والی چیزوں کے لیے اس طرح کا بے مثال نظام نہیں ہو سکتا۔تو کجا کہ وہ چیز اپنی بقا اور ترقی کے لیے کسی نظام کی پابند ہوسکے۔پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق و مالک مدبر و متصرف اورحاکم صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے۔اس کے علاوہ نہ ہی کوئی خالق ہے اور نہ ہی حاکم۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف: 54)
’’یاد رکھواللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔‘‘
مخلوق میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا انکار کیا ہو۔ اگر کسی نے بطور تکبر کے ایسے کیا ہو جیسے فرعون نے کیا تھا تو یہ ایک علیحدہ بات ہے۔
سیّدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۂ طور کی تلاوت سنی۔جب اس آیت پر پہنچے : ﴿ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ o اَمْ خَلَقُوْا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَل لَا یُوقِنُوْنَ o اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ اَمْ ہُمُ الْمُسَیْطِرُوْنَ﴾ (الطور :35تا37) ’’ کیا یہ بغیر کسی سبب کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا خود پیدا کرنے والے ہیں ۔کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے بلکہ یہ یقین کرنے والے نہیں ۔ یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں ؟ یاان خزانوں پر داروغہ ہیں ۔‘‘ اس وقت تک سیّدنا جبیر رضی اللہ عنہ مشرک تھے۔فرماتے ہیں :’’قریب تھا کہ ان آیات کے اثر سے میرا دل نکل جاتا ۔ یہ سب سے پہلی آیات تھیں جن کی وجہ سے ایمان ان کے دل میں گھر کر گیا۔(البخاری4854)