کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 25
حجت کافی تھی۔‘‘[1]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ[2] فرماتے ہیں :
((باب: العِلم قبل القولِ والعملِ والدلِیل قولہ تعالیٰ: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ ﴾
باب اس بیان میں کہ عمل سے پہلے علم حاصل ہونا چاہیے۔[3] اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے :
[1] اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ سورت مخلوق کو دین الٰہی پر قائم رہنے کی ترغیب دلانے اور ایمان وعمل صالح اوردعوت الی اللہ اورصبرو استقامت پرابھارنے کے لیے صرف یہی سورت کافی تھی ۔باقی تمام شریعت کی جگہ بندوں پر بطور حجت کے کافی ہونا مراد نہیں ۔آپ کا یہ فرماناکہ :’’اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اس سورت کے علاوہ کچھ بھی نازل نہ کرتے تو بھی یہ حجت کافی تھی۔‘‘
اس لیے کہ عقل مند انسان جب اس سورت کو پڑھتا یا سنتا ہے تووہ لازمی طور پر اپنے نفس کو خسارہ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔اور ایسا کرنا ان چار صفات کی بنیادپر ہی ممکن ہے:ایمان عمل صالح حق بات کی تاکید اور صبر کی تاکید اوروصیت۔
[2] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابو عبداللہ اورنام محمدہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے:’’ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ البخاری۔آپ بخاری شہرمیں 194ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں اپنی والدہ کی آغوش میں پرورش پائی۔اورسمر قند سے دو فرسخ کے فاصلہ پرخرتنک نامی علاقہ میں 256ہجری میں عید الفطر کی رات وفات پائی۔
[3] اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قول و عمل سے قبل حصول علم کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔یہ ایک ماثور دلیل ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ پہلے علم حاصل کرے اور پھر عمل کرے۔اس کے علاوہ اس مسئلہ پر عقلی دلائل بھی موجود ہیں کہ قول و عمل سے پہلے علم حاصل کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ قول یا عمل اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا، جب تک وہ شریعت کے مطابق نہ ہو۔ اور انسان کو اس وقت تک پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کا عمل شریعت کے مطابق ہے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ اسے علم حاصل ہو ۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا علم انسان کو فطرت سلیمہ کی روشنی میں حاصل ہوجاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا علم ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کا علم حاصل کرنے کے لیے زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ باقی تمام جزوی مسائل بکھرے ہوئے ہیں ان کو حاصل کرنے کے لیے جستجو ومحنت کی ضرورت ہوتی ہے۔