کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 23
[1]الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾[2] (سورۃ العصر)
’’زمانے کی قسم!بیشک انسان سراسر نقصان میں ہے .سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘
[1] [گزشتہ حاشیہ]کرتا ہے اس کے لیے ایسے حالات ضرور پیش آتے ہیں جن پر اسے صبر کرنا پڑتاہے۔ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کی طرف ہی دیکھیےآپ کوآپ کی قوم کے لوگوں نے اتنا مارا کہ لہو لہان کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے کہ اپنے چہرہ سے خون صاف کررہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کررہے ہیں اے اللہ! میری قوم کو معاف کردے یہ لوگ جانتے نہیں ۔ (متفق علیہ)
پس داعی کو چاہیے کہ وہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس پر اجر کی امید رکھے۔صبر کی تین اقسام ہیں :
1۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالانے پر صبر۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے محارم سے اجتناب پر صبر۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تقدیر پرصبر۔یہ تقدیر یا تو ایسی ہوتی ہے کہ جس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔یا پھر بسا اوقات اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ہاتھوں سے کوئی ایسے اذیت رسانی اورتکلیف دہی کے کام کروا دیتا ہے۔
[2] یعنی مذکورہ چار مسائل کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿وَالْعَصْرِo اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾(سورۃ العصر)
’’زمانے کی قسم ! بیشک (بالیقین)انسان سراسر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘
والعصر:…اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں عصر کی قسم اٹھائی ہے۔ عصر سے مراد زمانہ ہے جو کہ خیر وشر کے حوادثات کی آماج گاہ(محل وقوع)ہے۔اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم اس کی اہمیت کو اجاگرکرنے کے لیے اٹھائی ہے کہ: بیشک تمام انسان گھاٹے ونقصان میں ہیں مگران لوگوں کو نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں جن میں یہ چارصفات پائی جاتی ہوں : ایمان عمل صالح آپس میں حق بات کی تاکید اور باہم صبر کی تاکید و وصیت۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جہاد بالنفس کے چارمراتب ہیں :
1۔پہلا مرتبہ :یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہدایت اوردین حق کے سیکھنے میں لگائے رکھے۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ ہی دنیامیں کامرانی اورخوش نصیبی حاصل ہوتی ہے اورنہ ہی آخرت میں کامیابی ملتی ہے۔
2۔ دوسرا مرتبہ :یہ کہ دین حق سیکھنے کے بعد اپنے نفس کو اس پرعمل کرنے میں لگائے رکھے۔[جاری ہے]