کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 21
[1]چوتھامسئلہ:…اس راہ میں مصائب پر صبر[2]
ان سب کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:
[1] [سابقہ حاشیہ] خاص مجالس میں دعوت الی اللہ مثال کے طورپر جب انسان کسی دعوت کی مجلس میں بیٹھا ہو تو اسے غنیمت سمجھتے ہوئے لوگوں کواللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت پیش کرے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان ایسی مجالس میں دعوت کا کام اس انداز میں کرے کہ لوگ اسے اپنے اوپر بوجھ بھی نہ سمجھنے لگے اوراس سے اکتائیں بھی نہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کوئی علمی مسئلہ لوگوں پرپیش کرے اور پھر اس کے متعلق گفتگو شروع کردے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کتاب اللہ کا فہم اورسمجھ حاصل کرنے میں سوال و جواب کے طریقہ کار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کبھی کبھار اس کے اثرات خطبہ و تقریراور درس اور تحریر سے بھی بڑھ کر مثبت ہوتے ہیں ۔
دعوت الی اللہ کے فضائل:دعوت الی اللہ کا کام انبیاء ومرسلین کاکام اور ان کے سچے متبعین کا طریقہ کارہے۔ جب انسان پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہوجائے کہ اس کو اپنے معبود اوراپنے نبی کی اور اپنے دین کی معرفت حاصل ہوجائے تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بچانے کے لیے انہیں دین کی دعوت دے تاکہ خیر الامت ہونے کی بشارت اس پر پوری ہوسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ((فَوَ اللّٰہِ لَئِنْ یَہْدِی اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرَ النَّعْمِ۔)) ’’اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ اگر تمہارے ذریعہ سے کسی آدمی کو ہدایت دے دے تو تمہارا یہ فعل تمہارے لیے سرخ اونٹوں کے ریوڑ سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘ [متفق علیہ]
ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے بھلائی کی طرف دعوت دی اس کو اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے ان میں سے کسی کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔اور جو کوئی کسی گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے اس پر بھی اتنا ہی گناہ ہوتا ہے جتنا اس پر عمل کرنے والوں پر ہوتاہے ان میں سے کسی کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘
نیز ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو کسی خیر کے کام کی طرف رہنمائی کرتاہے اس کے لیے بھی اتنا ہی اجرہے جتنا اجر خیرکاکام کرنے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ (مسلم: 2674)
[2] صبر:… صبر کہتے ہیں :اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر لگائے رکھنا اوراس کی نافرمانی سے روکے رکھنااور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ تقدیر پر ناراضگی اورملال سے اورآہ و گریہ سے روک کر رکھنااور ہمیشہ اورہمہ دم دعوت الی اللہ میں چست اور سرگرم رہنا خواہ اس راہ میں کتنی تکالیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑیں ۔اس لیے کہ خیرکی طرف دعوت دینے والوں کو تکلیف دینا بشر [حاشیہ جاری ہے]