کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 18
[1]معرفت ِ دین اسلام۔ [2]
[1] [بقیہ حاشیہ] نیزاللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾[النور:51]’’ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان کے مابین فیصلہ کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔‘‘ نیزاللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾ (النساء:59) ’’پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤاللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اگر تمہارا اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘ نیزاللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (النور:63 )’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت آ پڑے یا انہیں دردناک عذاب آن پہنچے۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :کیا تم جانتے ہو فتنہ کیاہے؟ فتنہ شرک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول کو ٹھکرانے کی وجہ سے دل میں ایسی گمراہی پیدا ہوجائے جو اس کو ہلاک کرکے رکھ دے۔ [2] دین اسلام معرفت: اسلام کا عمومی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے ان قوانین کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بندگی کی جائے جو قوانین رسولوں کی بعثت سے لے کر قیامت تک کیلئے مقرر اورطے شدہ ہیں ۔ قرآن کی کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کاتذکرہ فرمایا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ تمام شریعتیں اسلام ہی تھیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے انہوں نے دعا کی تھی : ﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ [البقرۃ:128] ’’ اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ ۔‘‘ اسلام کا خاص معنی: اسلام اپنے خاص معنی میں ان تمام امور کو شامل ہے جنہیں دے کرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تھا۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کردیا گیا تھا۔لہٰذا جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گاوہ مسلمان ہوگااور جو کوئی آپ کی مخالفت کرے گا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔پس رسولوں کے پیروکاران ان کے دور میں مسلمان ہوا کرتے تھے۔جیسے یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مسلمان تھے اور عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں مسلمان تھے۔ مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان لوگوں نے آپ کاانکار کیا۔[حاشیہ جاری ہے ]